تحریر : ڈاکٹر سید احمد قادری عتیق مظفرپوری نے اردو صحافت کو ہمیشہ اپنی ریاضت سے عبادت کا درجہ دیا ہے۔ آج صحافت جس مقام پر کھڑی ہے، اور اپنے اصولوں سے ہٹ کر جب سے تجارت بن گئی ہے، نیز سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ پونجی پتیوں کی آواز میں آواز ملانے لگی ہے، اس سے اس کی شاندار روایات اور معیار پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔یہ سب گزشتہ کئی دہایوںمیں کبھی کبھی ہوتا تھا ۔ لیکن گزشتہ چند برسوں میں صحافت نے اپنا وقار اور صحافتی ایمان بھی کھویا ہے ۔ یہ ساری باتیں اب اس قدر جگ ظاہر ہیں کہ ان پر تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسے وقت میں ایسے صحافیوں کی بے اختیار یاد آتی ہے ، جنھوں نے صحافت خصوصاََ اردو صحافت کو اپنے خون جگر سے سینچتے ہوئے کبھی اس کے معیار اور وقار سے سمجھوتا کیا اور نہ ہی اپنے کسی مفاد کو شامل کر اسے رسوا ہونے دیا ۔ ایسے چندصحافیوں میں بلا شبہ ایک اہم نام عتیق مظفرپوری کا ہے ۔عتیق مظفرپوری نے اپنی بے پناہ صحافتی صلاحیتوں سے ایک بڑا اور اہم مقام حاصل کیا تھا ۔افسوس کہ زندگی نے ان کے ساتھ وفا نہیں کی۔
حقیقت یہ ہے کہ عتیق مظفرپوری کی بے وقت موت نے صحافتی دنیا کو سکتے میں ڈال دیا تھا۔ ادب اور صحافت سے ان کا گہرا رشتہ تھا ۔ ان کی صحافتی زندگی پر ایک نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوگا کہ انھوں نے ہمیشہ اپنے مفاد کی بجائے قوم و ملک کے نفاد کو ترجیح دی تھی ۔ اپنی صحافتی تحریروں سے ملک کے اندر مثبت افکار و نظریات کو بڑی خوبصورتی اور مؤثر انداز میں پیش کیا ہے ۔ اپنی بے باک، بے خوف اور جرأتمند انہ صحافتی تحریر سے عتیق مظفرپوری نے ملک کے اندر اپنا ایک خاص حلقہ بنایا تھا ، جو ان کی منفرد، شاندار اور جاندار تحریروں کو کافی پسند کرتا تھا ۔ انھوں نے کبھی بھی صلہ کی پرواہ کی ، نہ ہی ستائش کی تمنّا کی ۔ ہمیشہ سیاسی ، سماجی اور معاشرتی تعفن کو اجاگر کرتے ہوئے نئے سماج اور بہترمعاشرے کی تشکیل و تعمیر کے لئے کوشاں رہے ۔ کبھی بھی مصلحت پسندی سے کام نہیں لیا اور نہ ہی کبھی اپنی قلم کا سودا کیا ، بلکہ وہ برابر قلم کی حرمت کی پاسداری کرتے رہے ۔ گرچہ اس عمل سے ان کا ذاتی نقصان بھی ہوا ، لیکن کبھی اس کی پرواہ نہیں کی ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ہمیشہ معاشی بد حالی کے شکار رہے ، جو ایماندار اور بے باک اردو صحافی کی خا ص پہچان رہی ہے ۔ مشکل سے مشکل حالات میں بھی ان کے قدم نہیں ڈگمگائے اور وہ صحافت کے سنگلاخ راستوں پر نہ صرف خودچلتے رہے، بلکہ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے رہے۔
Journalist
عتیق مظفرپوری کے یہ وہ اوصاف ہیں ،جنھیں ہمیشہ قدر کی نگاہوں سے دیکھا گیا اورانتقال کے بعد بھی لوگ ان کی شرافت ، ایمانداری ، بے نیازی اور ان کے صبر و تحمل کو یاد کر کف افسوس ملتے ہیں ۔ عتیق مظفرپوری کی زندگی کے اوراق پلٹیں تو ہمیں ان کی زندگی میں کوئی گلیمر نظر نہیں آئے گا ،بلکہ ایک حق پسند اور صاف گو صحافی کی جو شان ہوتی ہے کہ وہ کسی کے سامنے اپنی خودداری اور اپنے ضمیر کا سودا نہیں کرتے۔ وہ ایسے لوگوں (صحافیوں ) کے لئے مثال ضرور ہیں۔
عتیق مظفرپوری کا اصل نام محمد عتیق تھا ، ان پیدائش مظفرپور ضلع کے مہیش استھل گاؤں میں 1 دسمبر1952ء کو ہوئی تھی ۔ ان کے والد کا نام عبدالرحمٰن تھا ۔ ان کے قلمی سفرکاآغاز1978میںنیوسلوربک ایجنسی ،محمدعلی بلڈنگ،بھنڈی بازار،بمبئی سے ہوا۔اس ادارے کے لئے انھوں نے کئی چھوٹی چھوٹی کتابیں تصنیف وتالیف کیں،اس میں مختلف عنوان کے تحت مختلف شعراکے اشعارکاانتخاب’سب رنگ شاعری’بھی شامل ہے جو1978میںان کے نام سے شائع ہوا۔یہ اس زمانے میںاپنی طرزکاانوکھاکلکشن تھا۔اس کے درجنوں ایڈیشن شائع ہوئے اور لاکھوں کاپیاںفروخت ہوچکی ہیں۔1980میںمحمدرفیع مرحوم کو خراج عقیدت کے طورپر ‘محمد رفیع کی فلمی غزلیں’ کے نام سے بھی ایک کتاب ان کی شائع ہوئی تھی۔1978ء ہی میںان کاپہلامقالہ ‘سگریٹ نوشی ایک لعنت’اردوٹائمز،بمبئی میں شائع ہوا۔اس کے بعد سے ان کاقلمی سفر مسلسل جاری رہا۔
1980ء میں عتیق مظفرپوری بمبئی سے پٹنہ آگئے۔ حالانکہ بمبئی میں بہت سارے سرکردہ شخصیات سے گہرے مراسم تھے اور ان کے ایک اشارہ پر لوگ ان کے لئے اپنی تجوری کھول سکتے تھے ۔ لیکن عتیق مظفرپوری ایک باضمیر اور با کردار شخصیت کا نام تھا ۔وہ ہر طرح کی مصیبتیں اور پریشانیاں کو گھونٹ در گھونٹ پینے کے عادی تھے ، کبھی زبان پر حرف شکایت نہیں ۔ بمبئی سے پٹنہ منتقلی پر ان کی بزرگ دوست عصمت چغتائی( آپا)نے انھیںلکھے اپنے ایک خط میں ایک قابل ذکرتبصرہ کیا تھا ۔انہوںنے لکھاتھا”عتیق اچھاکیاجوتم نے بمبئی چھوڑدی ،یہ چوراچکوںکاشہرہے یا پھرہم جیسے لوگ جواس کے عادی ہوچکے ہیں۔کیفی(اعظمی)بھی بمبئی کوچھوڑکر اعظم گڑھ چلے گئے۔”
بہرکیف عتیق مظفرپوری 1980ء میںپٹنہ آکرہفت روزہ”اسپلنٹر”کے ادارتی شعبہ سے وابستہ ہو گئے۔ یہ ہفت روزہ ایک ساتھ انگریزی،ہندی اور اردومیںشائع ہوتاتھا۔ایس پی سانیال صاحب اس کے مالک تھے ۔ایسٹ بورنگ کینال روڈ پراس کادفترتھا۔گائے گھاٹ پٹنہ کے رہنے والے آنجہانی مانک لال دھاراتینوںایڈیشن کے پرنٹرپبلشر تھے۔ہندی کی ادارتی ذمہ داری ان کے دوست آنجہانی شرمانجوکشور نے سنبھال رکھی تھی۔اردو کے ایڈیٹرہارون خاںثانی صاحب تھے۔انھیںبھی ہفت روزہ ”اسپلنٹر”کے ساتھ ساتھ پٹنہ سے شائع ہونے والے مختلف روزناموں میں کام کرناپڑا۔پٹنہ میں قیام کے دوران انھوں نے متعدد افسانے بھی لکھے،ان میںسے بیشترآل انڈیاریڈیو ،پٹنہ سے نشر ہونے کے ساتھ ساتھ اور آل انڈیاریڈیو کی اردوسروس کے ترجمان پندرہ روزہ ‘آواز’دہلی میں شائع ہوئے تھے۔
Patna
1986 میں پٹنہ سے عتیق مظفرپوری نے ماہنامہ’افسانوی دنیا’کا اجرأ کیاجوایک برس تک جاری رہنے کے بعد 1987میںان کی علالت کی نذرہوکربندہوگیا۔ پٹنہ کا پانی عتیق مظفرپوری کے مزاج کے موافق نہیںتھا، اس لئے وہ بار بار یہاں بیمار ہو جا رہے تھے ۔ طویل علالت کے بعد انھیں دہلی منتقل ہوناپڑا۔صحت یابی کے بعد دہلی کی صحافتی زندگی کاآغازروزنامہ’قاری’اورہفت روزہ ‘نیشنل ایکتا’وغیرہ سے ہوا۔یہاںکی صحافتی صورتحال بھی پٹنہ سے مختلف نہیں تھی۔ کاتبوں کی طرح ہی بیشترصحافیوں کوگزربسرکرنے کے لئے ایک سے زیادہ اخبارات و رسائل میں کام کرناپڑتاتھا۔ دلّی میں بھی اردوکے ایسے ادارے کم تھے جوباصلاحیت اورصحت مندعملے کا بوجھ برداشت کرسکیں۔ 1990ء میںجناب م۔افضل کے راجیہ سبھاکارکن بننے کے بعد انہوںنے انھیں ہفت روزہ’اخبارنو’کے ادارتی شعبہ میںشامل کرلیا گیا۔تقریباًچاربرس تک اس ہفت روزہ اخبار سے ان کی وابستگی رہی۔
اسکے بعد1994ء میںدہلی سے ہی انھوں نے ہفت روزہ’ تیسرا راستہ’کااجراء کیا ،جو کئی برس تک جاری رہا۔اس ہفت روزہ نے کافی شہرت و مقبولیت حاصل کی۔یہ وہ وعقت تھا کہ الیکٹرونک میڈیاکی آمد آمد اور ہفت روزہ اخبارات کے زوال کادور تھا۔عتیق مظفر پوری نے2000 ئمیں’تیسراراستہ’کی اشاعت روک کر پندرہ روزہ’سائبان’ کااجرا کیا۔ جسے ،ان کے بڑے بیٹے جاویدرحمانی نے اسے روزنامہ میں تبدیل کرکے مزیدچارچاندلگادیا ہے۔2006 ء میں عتیق مظفرپوری کی روزنامہ’راشٹریہ سہارا’سے بطور سب ایڈیٹر وابستگی ہو گئی ۔ اس کے بعد اورسہاراکی شرائط کے مطابق انھیں’سائبان’کی ذمہ داری جاویدرحمانی کوسونپنی پڑی تھی۔2006سء سے انتقال سے کچھ عرصہ قبل تک ‘روزنامہ راشٹریہ سہارا’ نوئیڈا میں بطورسب ایڈیٹرملازمت کرتے رہے۔ لیکن صحت کی خرابی کے باعث انھیں اس ادارے کو بھی چھوڑنا پڑا، اور بہ حالت مجبوری اپنے آبائی گاؤں میں سکونت اختیار کر لی تھی ۔ عتیق مظفرپوری کی صحافتی زندگی ایسی تھی کہ بہتوںنے ان سے صحافتی فیض اٹھایا۔انھوں نے اردوصحافت کواپنی منفردتحریروںسے نہ صرف انفرادیت بخشی بلکہ اس کی اہمیت اورافادیت میںبھی اضافہ کیاہے۔ ان کے صحافتی مضامین ، کالم اور تبصروں میں ایک خاص قسم کا حسن و معیار پایا جاتا تھا۔
بے باک، بے خوف اور بے لاگ انداز بیان کے لئے عتیق مظفرپوری کو ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا ۔ ان کی دور اندیشی کا یہ عالم تھا کہ ان کی بعض تحریروں کو اگر آج کی تاریخ ڈال کر شائع کر دیا جائے ، تو ایسا محسوس ہوگا کہ یہ تحریر آج ہی کا منظر نامہ پر مبنی ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے بکھرے ہوئے سیاسی، سماجی معاشرتی اور ادبی مضامین اور کالموں کو یکجا کر شائع کر دیا جائے ، جن سے آنے والی نسل نہ صرف استفادہ کرے بلکہ وہ یہ بھی دیکھے کہ اگلے وقتوں میں کیسے کیسے بے باک ، بے خوف اور بے لاگ صحافی ہوا کرتے تھے اور جو صحافت کو تجارت کی بجائے عبادت تصور کیا کرتے تھے۔