واشنگٹن (جیوڈیسک) اس سال کے امریکی صدارتی انتخابات میں ووٹروں کی پسند طے ہونے کا دارومدار نسبتاً آسان لگتا ہے۔ کیا وہ ری پبلیکن امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے دی گئی تبدیلی کی نوید پر یقین کریں یا پھر استحکام اور مزاج کا معاملہ جس کی نمائندگی ڈیموکریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن کرتی ہیں؟۔
فی الوقت، رائے عامہ کے جائزے ظاہر کرتے ہیں کہ امریکیوں کی زیادہ تر تعداد بعد والی ترجیح کی طرف مائل سی لگتی ہے۔
تبدیلی اور مزاج کے معاملوں کو انتخابی مہم کے دوران اٹھایا گیا، جب کہ کلنٹن نے ٹرمپ کے کردار اور صدر کے طور پر اُن کی موزونیت کا معاملہ اٹھایا ہے۔
پینسلوانیا کے شہر اسکرینٹن میں ہونے والی ایک حالیہ ریلی کے دوران اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کلنٹن نے کہا کہ ’’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ڈونالڈ ٹرمپ مزاجاً غیرموزون ہیں اور امریکی صدر اور کمانڈر اِن چیف بننے کے لیے بالکل ہی نامناسب ہیں‘‘۔
پنسلوانیا کئی ایک فیصلہ کن ریاستوں میں سے ایک ہے، جہاں کے حالیہ رائے عامہ کے جائزوں میں ٹرمپ بہت پیچھے ہیں۔
کلنٹن کی ریلی میں نائب صدر جو بائیڈن شامل تھے، جن کا اسکرینٹن سے آبائی تعلق ہے، جنھوں نے کہا کہ ٹرمپ وائٹ ہاؤس کے لیے’’بالکل ہی نااہل ہے‘‘۔
مزاج کا مسئلہ
حالیہ جائزہ رپورٹوں میں کلنٹن کو برتری ملی ہے جس کا سبب کسی حد تک ووٹروں میں ٹرمپ کے مزاج کا معاملہ ہے۔ ’بلوم برگ‘ کے ایک حالیہ سیاسی جائزے سے پتا چلتا ہے کہ سروے میں شامل 56 فی صد شرکا خیال کرتے ہیں کہ کلنٹن مناسب مزاج کی مالک ہیں، جب کہ اس ضمن میں محض 31 فی صد نے ٹرمپ کا نام لیا۔
مون ماؤتھ یونیورسٹی کے سروے کے بھی یہی نتائج تھے، جس جائزے میں 27 فی صد نے بتایا کہ ٹرمپ کا مزاج درست ہے، جب کہ 67 فی صد نے نفی میں جواب دیا۔ اِسی جائزہ رپورٹ میں، 61 فی صد نے کہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ کلنٹن کا مزاج مناسب ہے، جب کہ 34 فی صد نے اُن کے خلاف رائے دی۔
لیکن، اُنہی جائزوں سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ متعدد ووٹر اب بھی کلنٹن کو بداعتمادی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مون ماؤتھ کے مطابق، جائزے میں شامل لوگوں میں سے صرف 27 فی صد کا خیال ہے کہ وزیر خارجہ کی حیثیت سے نجی اِی میل سرور کے استعمال کے معاملے پر اپنے مؤقف میں کلنٹن سچی ہیں، جب کہ 64 ایسا نہیں سمجھتے۔
کلنٹن پر ملبہ گرانے کی کوشش ٹرمپ کی انتخابی مہم خوب جانتی ہے کہ کلنٹن اُنھیں نااہل ثابت کرنے پر تُلی ہوئی ہیں، اس لیے ٹرمپ کی کوشش ہے کہ ملبہ کلنٹن ہی پر گرے۔
اوہائیو میں خارجہ پالیسی کے عنوان پر اپنے ایک حالیہ خطاب میں اُنھوں نے کہا کہ ’’ایک کے بعد ایک واقعات سے یہ پتا چلتا ہے کہ کلنٹن میں قوتِ فیصلہ کی کمی ہے، جس طرح برنی سینڈرز نے کہا تھا کہ ہمارے ملک کی سربراہی کے لیے استحکام، مزاج اور اخلاقی کردار کی ضرورت ہے‘‘۔
کلنٹن کی طرح، ٹرمپ بھی اپنی بات منوانے کے لیے ساتھی کی مدد پر انحصار کرتے ہیں، جن میں نیو یارک سٹی کے سابق میئر، روڈی جوُلیانی شامل ہیں۔
اوہائیو میں ٹرمپ کی ریلی میں جولیانی نے کہا کہ ’’جس بھی شعبے کی بات کی جائے، آج حالات ابتر ہیں اُس وقت کے مقابلے میں جب ہیلری کلنٹن نے محکمہٴ خارجہ میں قدم رکھا تھا‘‘۔