اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون اور انصاف کی طرف سے رواں سال فروری میں منظور کیے جانے والے ’ہندو میرج ایکٹ‘ کے مسودہ قانون کو بالآخر منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون اور انصاف کے چیئرمین بشیر محمود ورک نے کہا کہ ہندو برادری کی تقریباً تمام ہی تجاویز کو مسودہ قانون میں شامل کیا گیا۔
اُنھوں نے کہا کہ اس مجوزہ قانون کے مسودے کی تیاری میں ہندو برادری کے نمائندوں کے علاوہ دیگر تمام فریقوں سے بھی مشاورت کی گئی اور اُن کی تجاویز کو بھی اس کا حصہ بنایا گیا ہے۔
اس مسودہ قانون پر پارلیمانی کمیٹی میں تقریباً 10 ماہ تک بحث اور غور کیا گیا اور کمیٹی سے منظوری کے چھ ماہ بعد اسے بدھ کو قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔
اس مجوزہ قانون کی تیاری میں پیش پیش ہندو برادری کے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار نے کہا کہ اگرچہ اس کام میں وقت لگا لیکن اُن کے بقول یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔
’’یہ مسودہ تو تقریباً میرا ہی مسودہ ہے مگر اس کے اندر ایک دو جو پوائنٹس تھے جو جبراً مذہب کی تبدیلی کو روکنے سے متعلق تھے ان چیزوں کو منظور نہیں کیا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نا ہونے سے ہونا اچھا ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہ ہندو برادری کے لوگوں کی جبری طور پر مذہب کی تبدیلی روکنے کا معاملہ اگرچہ الگ ہے لیکن وہ اس مسودہ قانون میں اُس کو حصہ بنانے کے خواہاں ہیں۔
’’مذہب کی جبراً تبدیلی علیحدہ معاملہ ہے، میرج رجسٹریشن الگ معاملہ ہے۔۔۔ میں نے جبری طور پر مذہب کی تبدیلی کے معاملے کو بھی کسی (اس کا حصہ بنوانے کی کوشش کی)۔۔۔ مگر وہ چیزیں نہیں ہوئی اتنا بھی ہوا ہے تو بہت ہے۔‘‘
مسودہ قانون کے تحت ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے 18 سال سے کم عمر لڑکے یا لڑکی کی شادی پر پابندی ہو گی جب کہ کم عمری کی شادی پر جرمانے کی سزا بھی تجویز کی گئی ہے۔
مسودہ قانون میں کہا گیا کہ شادی ہونے کے چھ ماہ کے اندر اندر اس کا اندراج کرانا لازمی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں ہندو برادری کی شادیوں کے اندراج کا کوئی قانون نہیں ہے اور طویل عرصے سے پاکستان میں موجود ہندو برادری اس بارے میں قانون سازی کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔
ملک میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والوں کی شادیوں کے اندراج سے متعلق قانون نا ہونے پر سپریم کورٹ بھی پوچھ چکی ہے۔
پاکستان میں آباد ہندو برادری کا یہ موقف رہا ہے کہ شادی کا اندراج ایک بنیادی ضرورت ہوتی ہے اور ایسا نا ہونے کی وجہ سے ملک میں ہندو برادری کو بہت سی مشکلات کا سامنا رہا کیوں کہ قانون کی عدم موجودگی کے باعث بہت سے قانونی معاملات میں کسی جوڑے کے لیے اپنی شادی شدہ حیثیت کو ثابت کرنا ممکن نہیں تھا۔