پنجاب (جیوڈیسک) پاکستان کے صوبہ پنجاب میں خواتین پر تشدد کے خلاف منظور شدہ قانون پر فوری عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے ’ویمن پروٹیکشن اتھارٹی‘ کے نام سے الگ ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں تشدد کے خلاف خواتین کے تحفظ کا بل باقاعدہ قانون بننے کے باوجود نافذ العمل نہیں ہو سکا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ بعض انتظامی مسائل کی وجہ سے اس ایکٹ کو قابل عمل نہیں بنایا جا سکا تاہم اب حکومت نے ویمن پروٹیکشن اتھارٹی کے نام سے ایک الگ ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد اس قانون پر جزوی عمل شروع ہو جائے گا۔
پنجاب اسمبلی نے مذہبی حلقوں کے شدید دباؤ کے باوجود اس سال فروری میں تشدد کے خلاف خواتین کے تحفظ کا بل منظور کیا جسے گورنر کے دستخط کے بعد 29 فروری کو باقاعدہ قانون کی شکل دے دی گئی۔
اس قانون کے خلاف مذہبی حلقوں کی جانب سے بڑا احتجاج بھی کیا گیا اور اس کے مقابلے میں ایک مسودہ قانون مرتب کر کے پنجاب حکومت کے ساتھ مذاکرات بھی کیے گئے۔
اس قانون کے روح رواں اور پنجاب کے سینیئر ممبر سپیشل مانیٹرنگ یونٹ لا اینڈ آرڈر سلمان صوفی کا کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد کے خلاف منظور کردہ قانون کے مطابق اس پر عمل درآمد سے قبل صوبے بھر ’ڈسٹرکٹ ویمن پروٹیکشن کمیٹیاں‘ تشکیل دی جانی تھیں اور ہر ضلع میں ’انسداد تشدد مراکز برائے خواتین‘ قائم کیے جانے تھے لیکن ابھی تک صرف ملتان میں انسداد تشدد مرکز کی تعمیر کا کام جاری ہے جو اکتوبر میں مکمل ہوگا۔
انھوں نے بتایا کہ ڈسٹرکٹ ویمن پروٹیکشن کمیٹیاں بھی انتظامی مسائل کی وجہ سے نہیں بن سکیں۔
سلمان صوفی نے کہا کہ یہ کام محکمہ سماجی بہبود کے سپرد تھا لیکن محکمے کے پاس پہلے کئی کام ہیں یہی وجہ ہے کہ کابینہ کی کمیٹی برائے لا اینڈ آرڈر نے ’ویمن پروٹیکشن اتھارٹی‘ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ خواتین پر تشدد کے خلاف قانون پر فوری عمل درآمد کو یقینی بنایا جاسکے۔
اس اتھارٹی کی سربراہی بھی ایک خاتون پولیس آفیسر کے سپرد کرنے کی تجویز ہے اس مقصد کے لیے اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) پولیس جینڈر کرائمز کی پوسٹ بھی تخلیق کی جائے گی۔
ڈسٹرکٹ ویمن پروٹیکشن کمیٹیاں اور انسداد تشدد مراکز اسی اتھارٹی کے تحت کام کریں گے۔ اتھارٹی میں محکمہ قانون کے نمائندوں اور انتظامی افسروں کو بھی شامل کیا جائے گا۔
سلمان صوفی نے بتایا کہ ویمن پروٹیکشن اتھارٹی ستمبر میں کام شروع کردے گی اور اکتوبر میں ملتان کو انسداد خواتین مرکز بھی فعال ہوجائے گا جس کے بعد ملتان پنجاب کا پہلا ضلع ہوگا جہاں سے خواتین پرتشدد کے خلاف قانون پر باقاعدہ عمل درآمد شروع ہوگا۔