اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان کی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے تصدیق کی کہ علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے دوران مقامی آبادی کے 11 ہزار سے زائد گھروں کو نقصان پہنچا۔
واضح رہے کہ قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی فوج نے 2009ء میں ’’راہ نجات‘‘ کے نام سے ایک بڑا آپریشن شروع کیا تھا۔ اس آپریشن کے باعث اس قبائلی علاقے سے لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے بعد یہاں املاک کو پہنچنے والے نقصان کو جاننے کے لیے اب تک دو سروے کیے جا چکے ہیں اور تیسرا جلد شروع ہونے کی توقع ہے۔
جنوبی وزیرستان کے اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ محمد شعیب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اب تک جو جائزہ رپورٹ تیار کی گئی ہے اُس کے مطابق 11 ہزار گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں 6500 گھروں کو نقصان پہنچنے کی تصدیق ہوئی تھی جب کہ دوسرے مرحلے میں معلوم ہوا کہ مزید 4500 گھروں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ محمد شعیب کہتے ہیں کہ ان میں مکمل طور پر تباہ ہونے والے گھروں کے علاوہ ایسے مکان بھی شامل ہیں جنہیں جزوی نقصان پہنچا۔
اُنھوں نے کہا کہ جن افراد کے گھروں کو نقصان پہنچا اُن کے مالکان کو معاوضے کی ادائیگی کا عمل بھی جاری ہے۔
’’اس میں ہم نے کوئی ایک ارب اور80 کروڑ روپے تقسیم کیے ہیں، یہ مرحلہ ختم ہونے والا ہے ۔۔۔۔ مکمل تباہ گھر کے لیے چار لاکھ روپے دیئے گیے اور جزوی طور پر تباہ ہونے والے گھر کے لیے ایک لاکھ 60 ہزار روپے۔۔۔ ابھی دوسرا مرحلہ ہم نے مکمل کیا ہے سروے ہو چکا ہے ۔۔۔۔ چار ہزار سات سو گھروں کے لیے تقریباً ایک ارب 51 کروڑ روپے بنتے ہیں جو ہم نے مانگے ہیں۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ علاقے میں سروے کا عمل اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ آخری متاثرہ شخص کو معاوضے کی ادائیگی نہیں ہو جاتی۔
’’ابھی جو جائزہ رپورٹ تیار ہوئی تھی وہ تقریباً 11 ہزار گھر ہیں ہمارا تیسرا سروے شروع ہو رہا ہے تو اس میں بھی ہمیں اندازہ ہو جائے گا کہ کتنے گھر تباہ ہوئے تھے اور اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہے گا جب تک آخری گھر کو پیسے نہ ملیں۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ علاقے سے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں میں سے ایک بڑی تعداد واپس اپنے گھروں میں آچکی ہے۔
’’نقل مکانی کرنے والے اندارج شدہ 71 ہزار خاندانوں میں سے ابھی تک 27 ہزار خاندان واپس جنوبی وزیرستان آ چکے ہیں اور اسی تعداد میں 23 ہزار غیر اندارج شدہ خاندان بھی واپس آئے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ دسمبر تک سارے لوگ اپنے علاقوں کو چلے جائیں۔‘‘
قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں اکثریت کا تعلق مسعود قبائل سے ہے اور یہاں سے نقل مکانی کرنے والے زیادہ تر خاندانوں نے صوبہ خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں میں اپنے عزیز و اقارب یا پھر کرائے کے گھروں میں رہائش اختیار کی۔
اگرچہ واپس جانے والے افراد کی بحالی کے لیے بہت سے منصوبے شروع کیے گئے اور حکومت کی طرف سے واپس آنے والے خاندانوں کو نقد امداد کے علاوہ ضروری بنیادی اشیا بھی فراہم کی گئیں تاہم اب بھی بہت سے خاندان امداد کے منتظر ہیں۔
جنوبی وزیرستان میں بہت سے ترقیاتی کام بھی شروع کیے گئے جن کی تکمیل کے لیے بین الاقوامی برداری نے بھی پاکستان کی مدد کی۔
جنوبی وزیرستان سے ملحقہ شمالی وزیرستان میں بھی جون 2014 میں آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا تھا اور اس کی وجہ سے بھی لاکھوں افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔