پاکستان اس لیے بنا تھا؟

Pakistan

Pakistan

تحریر: نسیم الحق زاہدی
حق طاقت کا نام ہے اس لیے ہر طاقت ور ہر قسم کے حقوق کا مالک کل بھی تھا آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گا پاکستان کو بنانے کا مقصد بر صغیر پاک ہند میںہندئوں ‘سکھوں کی اکثریت ہونے کی وجہ سے وہاں پر مسلمانوں کے حقوق کا کوئی محافظ ومدد گار نہ تھامسلمان غلام تھے ہندئوں سکھ جب چاہتے تھے مسلمانوں پر تشدد کرتے مسلمانوں کی عورتوں کو اٹھا کر لے جاتے اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ایسے میں مسلمانوں نے ایک آزاد ریاست کا خواب دیکھا جہاں پر ان کے حقوق پامال نہیں ہوںگے ان کی مائوں بہنوں بیٹیوں کی عزتیں نہیں لوٹی جائیں گی بلکہ ان کی عزتوں کی حفاظت ہو گی خواتین کافر بھی ہوں تو ان کا احترام لازم ہوتا ہے مگر گذشتہ روز پیش آنے والے واقعہ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ میرا پاکستان نہیںیہ ہر طاقت ور ‘ سرمایہ دار ‘جاگیردار’وڈیرے کا پاکستان ہے غریب کل بھی غلام تھا آج بھی غلام ہے اور ہمیشہ غلام رہے گاآج کے فرعونوں کے سامنے ا س دور کے فرعون بھی شرمندہ ہیںسترہ سال سے اپنے وطن سے محبت میں لکھ رہا ہوں

ہمیشہ دہشت گردی کے خلاف لکھا مگر خود ہمیشہ دہشت گردی کا شکار رہا اس سانحہ نے مجھے ستر سال پیچھے دھکیل دیا ہے کہ جب ہندئوں سکھوں کو انکے خود ساختہ خدائوں کا واسطہ دیا جاتا تھا تو وہ بھی ظلم سے ہاتھ روک لیتے تھے مگر اس پاکستان کے خدائوں کو تو کسی خداکا خوف ہی نہیںایک کرایہ کے گھر میں اپنی بیوی ایک بیٹی اور بہن بہنوئی کے ساتھ رہتا ہوں خود اتنا کرایہ ادا نہیں کر سکتا تو پارٹنر شپ کے زندگی کے تلخ ایام گزار رہا ہوںزندگی نے 34سال کی عمر میں ہی ہائی بلڈ پریشر معدہ اور جوڑوں کا مریض بنا دیا ہے اپنے کئی کالموں میں پہلے بھی اس بات واقع کا ذکر کرچکا ہوں ہم جس محلے میں رہتے ہیں وہاں کے چند اوباش نوجوان سارا دن گلیوں میں بلاوجہ کھڑے رہتے ہیں سٹیاں مارنا آتی جاتی خواتین پر آوازیں کسنااوربالخصوص رات نو بجے سے ایک بجے تک دوسروں علاقوں کے بھی آوارہ شرابیں چرسی غنڈے ساتھیوں کے ہمراہ موبائل پہ اونچی آواز میں گندی فلمیں اور گانے لگانااور نازیبا آوازیں لگانا ان کا محبوب مشغلہ ہے ایک بار اپیل کی تو شرابیں پی کر گالی گلوچ قتل اغواء جیسی سنگین دھمکیاں دیتے رہے15پر کا کی تو ہماری گھر سے تھانہ پانچ منٹ کے فاصلے پر ہے پولیس ایک گھنٹے میں پہنچی اور ان بااثر افراد کا تعلق پولیس کے کسی اعلیٰ افسر سے تھا

اس کے بعد تھانہ ان کا تھا اور ہمیں ذلت کے سواء کچھ نا ملااس کے بعد وہ اور بہادر ہوگئیان کا حق بھی بنتا تھا ان کا شہر وہی مدعی وہی منصف اس کے بعد خاموشی میں عافیت جانی مگر یہ بااثر جینے بھی نہیں دیتے گذشتہ روز وہی غنڈے بانسری نکلی موٹر سائیکل کو ریسیں دے کر تنگ کر رہے تھے ہائی بلڈپریشر کی گولی کھا کر سویا تھا اٹھ کر منت کی تو وہ گالیوں کے ساتھ تمسخرااڑانے لگے گھر میں ہم ٹوٹل چار افراد تھے د وخواتین اور مجھ سمیت دو مردآدھے گھنٹے بعد 40,50 مسلح افراد آکر گھر کے دروازے کوٹھڈے مارنے لگے اور غلیظ گالیاں اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے لگے اور چند غنڈے دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئے اور ایک نے پسٹل نکال کر میری بیوی پر تان لیا وہ تو میری بیوی کی ہمت تھی اس نے مجھے کمرے میں چھپا دیا ان کا ایک ہی کہنا تھا کہ مجھے قتل کرنا ہے میری بیوی نے کئی بار ون فائیو پر کال کی اور کہا کہ ملزمان کے پاس اسلحہ ہے پولیس عقل مند نکلی پانچ منٹ کا فاصلہ چالیس منٹ میں طے ہوا وہ بھی ایک سول لباس میں ایک بندہ آیا اور ملزمان کے ساتھ گپ شپ کرنے لگا اور ہمیں کہنے لگا میں پویس والا ہوں جب ہم نے وردی کا اصرار کیا تو دس منٹ بعد ایک باوردی پویس والی آیاتھانے گئے پویس والے نے چادروچار دیواری کو پامال کرنے کی اسلحہ نکالنے کی کوئی بات نہ کی اور ملزم جس نے خود کو ڈائریکٹر انٹی کرپشن ظاہر کیا

injustice

injustice

اسے باعزت طریقے سے کرسی پہ بیٹھایا اور ہم کھڑے رہے واہ رہے قانون محافظ نے صلح کا مشورہ دیا اور زبردستی کروابھی دی یہ کہہ کر کہ الٹا میری خلاف کاروائی ہوگی ہم آہ بھی کریں تو ہو جاتے ہیں بدنام ملزمان نے پولیس کی خدمت کی اور معاملہ رفع دفع کرا دیا قیام پاکستان کے مناظر متحرک ہوگئے ہیںچودہ اگست 1947کو میجر پورن سنگھ مجسٹریٹ علاقہ شریف پورہ کے کیمپ میں آئے اور صوفی غلام محمد ترک نے جب سکھ وحشیوں کے انسانیت سوز مظالم کا ذکر کیا تو وہ اپنے ہمراہیوں کے ساتھ جائے واردات تک چلنے کو آمادہ ہو گئے ۔

چنانچہ صوفی غلام محمد ترک ‘میجر پورن سنگھ دوفوجی سپاہیوں اور میجر کے عملے پر مشتمل ایک پارٹی شہر میں گئی جابجا لاشیں پڑی ہوئیں تھیں راستہ خون سے رنگین تھا مکانات کھنڈر بنے ہوئے بھیانک تباہی کا نقشہ پیش کر رہے تھے یہ دردناک منظر کچھ کم نہ تھا وہ مسجد رنگریزاں میںپہنچے جہاں گیارہ نوجوان لڑکیوں کی درد انگیز لاشیں اپنی مظلومیت کا اظہار کر رہی تھیں وہ ان کے پیٹ چاک تھے جسم سے اعضاء غائب تھے جب کوچہ رنگریزاں کی مسجد سے باہر نکلے تو ایک مکان کی چھت پر لگے پائپ سے خون بہہ رہا تھا مکان کی چھت پر چڑھ کر دیکھاتو ایک شیر خوار بچہ جو تقریباڈیڑھ ماہ کا ہو گا ٹکڑوں کی صورت میں پڑاتھا(داستان ترکص٩٢)میجر پورن سنگھ ایک مسلمان کے کہنے پر جائے وقوع پر چلنے کو تیا ر ہوگیااور آج اس پاکستان کے اندر حالات قیام پاکستان والے حالات سے مختلف نہ ہیںتھانے سارے ایک جیسے ہیں وڈیروں جاگیرداروں کی ذاتی عدالتیں جہاں پر بیٹھ کر وہ اپنی مرضی کے فیصلے صادر کرتے ہیں میرے آقا کیم ۖ کا فرمان ہے کہ وہ معاشرہ تباہ ہوجاتا ہے جس میں قانون امیر کے لیے کچھ اور ہو اور غریب کے لیے کچھ اورآج انسانی حقوق کا ڈنڈورا پیٹنے والی تنظیمیں کہاں ہیں کیا غریب کی خواتین کی کوئی عزت وآبرو نہیںجب چاہیں یہ غنڈے سرعام گھروں میں گھس کر نہتی خواتین پر اسلحہ تان لیں اور لعنت ہے ایسے مردوں کی مردانگی پر کہ نہتے چار لوگوں پر چالیس لوگوں کا دھاوااگر یہی سب کچھ ہونا تھا تو پاکستان کیوں بنایا تھا اس لیے کہ یہاں جاگیردار غریبوں کو غلام بنالیںغریب روٹی چوری کرے تو اس کو سزاء موت پھانسی اور امیر دہشت گردی کرے تو اسکی پشت پناہی اس دیس میں انصاف کی بولیاں لگتی ہیں تھانے بکتے ہیں۔

Police

Police

افسوس اکثر وزیر اعلی پنجاب ازخود نوٹس لیتے ہوئے پویس والوں کو معطل کرتے ہیں اگر انکی پہلے ہی تربیت درست کی جائے اور حرام کھانے والوں کو قرار واقعی سزاء دی جائے تو ایسے حالات جنم ہی نہ لیںایسا ممکن نہیںانسانی حقوق کا عالمی منشور 10دسمبر1948ئاقوام متحدہ نے انسانی حقوق کا عالمی منشور The Universal Declaration of Human Rightsمنظور کیا اور اسے دنیا کے سامنے پیش کیا اسے ایک بڑا انقلابی قدم سمجھا گیااور یہ خیال کیا گیا کہ یہ انسانی حقوق کا بہت ہی صاف اور واضح تصور اس کے اندر موجود ہے انسانوں کو ظلم وزیادتی سے بچانے کے لیے اس منشور میں تین باتوں پر زور دیا گیا ہے (١)فرد کی آزادی (٢)عدل کی آزادی (٣)مساوات قانون کے ماہرین کے نزدیک یہ اس اعلامیے کی بنیادی خصوصیات ہیں اگر تینوں چیزیں کسی غریب انسان کو مل جائیں تو اس کے حقوق محفوظ ہوجاتے ہیںافسوس اہل مغرب میں یہ قانون ہو گا مگر پاکستان میں نہیں یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس قانون صرف امیر کی حفاظت اور پروٹوکول کے لیے ہے لوگ قانون کو ہاتھ میں اس لیے لیتے ہیں کہ انہیں انصاف نہیں ملتا یقین جانیے غریب مر جاتا ہے مگر تھانے میں جانے سے ڈرتا ہے کیونکہ وہاں پر جو اس کی تذلیل کی جاتی ہے وہ مرنے سے زیادہ تکلیف ہوتا ہے قائد اعظمنے21اکتوبر1939کو آل انڈیا مسلم لیگ کونسل سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا میری زنذگی کی واحد تمنایہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد سر بلند دیکھوں میں چاہتا ہوں کہ جب میں مروں تو یقین اور اطمینان لے کر مروںکہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی ‘تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کردیا۔

بانی پاکستان ہم آپ نے تو اپنا فرض ادا کر دیا مگر پاکستان ہندئوں’سکھوں اور انگریزوں کی غلامی سے نکل کر وڈیروں ‘جاگیرداروں ‘سرمایہ داروں کے ہاتھ آگیا ہے جو اس وطن عزیز کو مال مفت سمجھ کر نوچ رہے ہیں غریبوں کمزوں کے سارے حقوق طاقتور کے لیے مباح ہیں ہم اسلامی جمہوری مملکت ہونے کے دعوے دار ہیں ایک اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے ہم نے یہ خطہ ھاصل کیا لیکن یہاں نہ تو دین کی تعلیمات پر عمل ہوتا ہے اور نہ ہی اس دین رحمت کے مطابق فرد کو حقوق ملتے ہیں آج ہمارے حقوق مٹھی بھر بالا دست طبقے کا حق سمجھ لیا گیا ہے جو حقوق نہیں مراعات(Privileges)ہیںآج نہ کوئی حضرت عمر نہیں ہے جو ظالموں کو سزاء دیں اور مظلوموں کو ان کا حق دلائیں جنہوں نے عمروبن العاص کے بیٹے عبداللہ کو بلاوجہ مارا تو حضرت عمر نے اسی مضروب سے ان کو کوڑے لگوائے جبکہ حضرت عمروبن العاص بھی وہی موجود تھے کیا جرات کہ اف بھی کرتے انصاف اسے کہتے ہیں میری تمام انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل ہے کہ ایک غریب کے گھر گھسنے اور بیوی پر پسٹل تاننے پر ایکشن لیں مقامی تھانہ سے انصاف کی کوئی امید نہ ہے الٹا جان کا خطرہ ہے
اس دیس میںلگتا ہے عدالت نہیں ہوتی۔
جس دیس میں انسانوں کی حفاظت نہیں ہوتی
ہر شخص سر پر کفن باندھ کے نکلے
حق کے لیے لڑنا تو بغاوت نہیں ہوتی

Naseem Ul Haq Zahidi

Naseem Ul Haq Zahidi

تحریر: نسیم الحق زاہدی