تحریر: حبیب اللہ سلفی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہونیوالی عظمت حرمین شریفین و اتحاد امت کانفرنس میں ملکی و غیرملکی سیاسی و مذہبی قائدین، رہنمائوں اور مسلم ممالک کے سفرا نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمانوں کے ایمان اور عقیدتوں کے مرکز حرمین شریفین کے تحفظ کیلئے پوری مسلم امہ متحد ہے اور کسی کو بھی مقدس مقامات کی جانب میلی نگاہ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ مسلم ممالک کو اپنے تمام اختلافات بھلا کر اسلام اور مسلم امہ کیلئے جرأتمندانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔ دین اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنیو الوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سعودی عرب کی سلامتی ہی امت مسلمہ کی سلامتی ہے۔
حرمین شریفین کے تحفظ کیلئے حکومت پاکستان سکیورٹی کونسل تشکیل دے اور پاکستانی فورسز کے دستے حرمین کے دفاع کیلئے مستقل طور پر تعینات کئے جائیں۔ کانفرنس کے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مسلم دنیا اپنے وقار ، عظمت کی بحالی اور مشترکہ پالیسیوں کیلئے ”متحدہ مسلم اقوام”کا فورم تشکیل دے۔ حج انتظامات کو سیاست کی نذر کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور نہ ہی اس کو کھلا شہر قرار دینے کی اجازت دیتے ہیں۔مسلمان ملک ایک دوسرے کے ملک میں مداخلت سے گریز کریں۔ کانفرنس میں کشمیرو فلسطین میں ڈھائے جانے والے مظالم ‘ مدینہ منورہ، کوئٹہ اور ترکی میں ہونے والے دھماکوں کی مذمت کی گئی اور سعودی عرب کی زیر قیادت 34ملکی اتحاد کی بھی مکمل حمایت کا اعلان کیا گیا۔
سعودی عرب میں بیت اللہ او رمسجد نبوی ‘ مسلمانوں کے دو حرم ہونے کی وجہ سے اسے مسلمانوں کا دینی مرکز ہونے کی حیثیت حاصل ہے اس لئے دشمنان اسلام کی شروع دن سے کوشش رہی ہے کہ کسی طرح اسے کمزور کیا جائے اور یہاں فتنہ و فساد کے بیج بوئے جائیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جب اس مقدس سرزمیں پر عدم استحکام کی صورتحال ہوگی تو پوری مسلم امہ کے حوصلے پست ہوں گے۔یہی وجہ ہے کہ ایک طرف صلیبی و یہودی یمن میں بغاوت جیسی سازشیں کھڑی کر کے بیرونی طور پر اس کا دفاع کمزور کر رہے ہیں تو دوسری جانب سعودی عرب میں اندرونی سطح پر بدامنی پھیلانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔
Masjid e Nabvi Suicide Blast
پچھلے کچھ عرصہ میں خاص طور پر برادر اسلامی ملک میں تکفیر اور خارجیت کو پروان چڑھانے کی کوششیں کی گئیں جس کے نتیجہ میں مختلف شہروںمیں مساجد اور دیگر مختلف مقامات پر بم دھماکے ہوئے اور اب حال ہی میں مسجد نبوی ۖ پر بھی خودکش حملہ کی کوشش کی گئی تاہم اللہ کے خاص فضل و کرم اور بہترین سکیورٹی انتظامات کی وجہ سے دہشت گردی مسجد نبوی کے اندر داخل ہونے میں کامیاب نہیں ہو سکے ۔سفاک دہشت گردوں کی جانب سے یہ حملے کر کے مسلم امہ کے سینے میں خنجر گھونپنے کی کوشش کی گئی۔یہ درندے یقینی طو رپر دشمن کے ہاتھوںمیں کھیل رہے اور ان کے ہی مذموم ایجنڈوں کو پروان چڑھا رہے ہیں۔یہ سازشوں کا ایک تسلسل ہے جو برادر اسلامی ملک کے خلاف کی جارہی ہیں۔ ان دنوں جب حج قریب ہے اور پوری دنیا سے مسلمان حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کیلئے سعودی عرب کا رخ کر رہے ہیں تو مختلف اطراف سے بھانت بھانت کی بولیاں بولنے کا سلسلہ بھی دراز ہوتا نظر آتا ہے۔
ان حالات میں اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں عظمت حرمین شریفین و اتحاد امت کانفرنس کا انعقاد یقینی طور پر خوش آئند امر ہے۔ یہ ایک بڑا شاندار اجتماع تھا جس میںسعودی عرب کے نائب وزیر مذہبی امور ڈاکٹر عبدالرحمن الغنام، سعودی سفیر عبداللہ مرزوق الزھرانی، وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید، مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سربراہ سینیٹرپروفیسر ساجد میر، امام و خطیب مسجد اقصیٰ ڈاکٹر عکرمہ سعید صبری، مفتی اعظم ترکی الشیخ رحیمی، الشیخ عادل عبدالرحمن المعادہ ممبر مجلس شوریٰ بحرین،ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری، قائمہ کمیٹی مذہبی امور کے چیئرمین حافظ عبدالکریم، دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین مولانا سمیع الحق ودیگر مذہبی و سیاسی قائدین نے شرکت کی۔ کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں نہ صرف کشمیر، فلسطین، شام، برما اور دنیا کے دیگر خطوں میں مسلمانوں پرجاری بدترین ظلم و بربریت کی شدید مذمت کی گئی بلکہ مسلمانوں کو درپیش مسائل کے حل کیلئے باہم متحد ہونے کی ضرورت و اہمیت پر بھی زور دیا گیا۔
کانفرنس کے دوران حرمین کے تحفظ کی بات کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان باقاعدہ ایک سکیورٹی کونسل تشکیل دے اور پاکستانی فوج کے دستے حرمین شریفین کے دفاع کیلئے مستقل طور پر تعینات کئے جائیں۔میں سمجھتاہوں کہ یہ مطالبہ بالکل درست اور مسلم امہ کے دل کی آواز ہے۔ مسلمانوں کے دو حرم جن کے تحفظ کی بات کی گئی ہے یہ بذات خود پوری امت مسلمہ کے اتحاد کی علامت اور امن کی نشانی ہیں۔اس لحاظ سے میں سمجھتاہوں کہ حرمین کی سرزمین سعودی عرب جس قدر مضبوط ومستحکم ہو گا اسی قدرمسلمان ملک محفوظ ہوں گے ،معا شروں میںوحدت و اتحادویکجتی کی فضا پیدا ہو گی اور دنیا کو اچھا پیغام جائے گا۔پاکستان اگر حرمین کے دفاع کیلئے فوجی دستے تعینات کرتا ہے تو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کئے گئے ملک پاکستان اور یہاں کے عوام کی اس سے زیادہ خوش قسمی اور کیا ہو سکتی ہے؟ ایٹمی پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے۔
Pakistan, Saudi Arabia
ہماری مسلح افواج کے ہر سپاہی کی دلی خواہش ہے کہ وہ حرمین کے تحفظ کیلئے کردار ادا کر سکے۔ حرمین شریفین کی سرزمین کو نقصان پہنچانے کی سازشیں ہو رہی ہوں تومسلمان قطعی طور پر اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ اس لئے میں سمجھتاہوں کہ حکومت پاکستان اور دفاعی اداروں کو وطن عزیز کی طرح سعودی عرب کے دفاع کو بھی اپنا دفاع سمجھتے ہوئے بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ کانفرنس میں شریک قائدین نے اسلام کا نام لیکر مسلمان ملکوں کی جانے والی دہشت گردی کی بھی سخت مذمت کی۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان، سعودی عرب اور ترکی سمیت مسلم دنیا کے اہم ممالک کو اندرونی طور پر بھی زبردست خطرات درپیش ہیں۔ تکفیر اور خارجیت کے فتنہ سے مسلمان ملکوں کو بہت زیادہ نقصانات سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔ دشمنان اسلام سمجھتے ہیں کہ میدانوںمیں مسلمانوں کو شکست سے دوچار کرنا ممکن نہیں ہے اس لئے مسلمان ملکوں میں فتنہ تکفیرو خارجیت پھیلا کرایک نئی جنگ مسلط کی جارہی ہے اور اس مقصد کیلئے بے پناہ وسائل خرچ کئے جارہے ہیں۔مسلمانوں کے دینی مرکز سعودی عرب میں خودکش حملے ہوں، پاکستان میں افواج، عسکری اداروں ، مساجداور پبلک مقامات پر بم دھماکے ہوں یا کسی دوسرے اسلامی ملک میں اس نوع کی دہشت گردی’ سب کے پیچھے دشمن قوتوںکاہاتھ کارفرما نظر آتا ہے۔ صلیبی و یہودی خود ہی دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کرتے ہیں۔
مسلم ملکوں میں افواج و دفاعی اداروں اور مساجد پر حملے کروائے جاتے ہیں’ بے گناہ انسانوں کا لہو بہانے کیلئے ہر طرح کی مدداور وسائل فراہم کئے جاتے ہیں اور پھرکچھ عرصہ بعد انہی دہشت گرد تنظیموں کا قلع قمع کرنے کے بہانے مسلم ملکوں میں مداخلت کر کے انہیں عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ہمیں متحد ہو کر دشمن کی ان مذموم منصوبہ بندیوں کو ناکام بنانا اور نوجوان نسل کی صحیح معنوں میں تربیت کرنی ہے تاکہ انہیں اسلام دشمن قوتوں کا آلہ کار بننے سے بچایا جاسکے۔اسی طرح مسلمان ملکوں کا باہم متحد ہونا اور مشترکہ دفاعی و معاشی پالیسیاں ترتیب دینا بھی بہت ضروری ہے۔ بین الاقوامی ادارے اور نام نہاد انسانی حقوق کے ٹھیکیدار ملک مسلمانوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ عظمت حرمین کانفرنس میں متحدہ مسلم اقوام کا فورم تشکیل دینے کی بات وقت کی اہم ضرورت ہے جس پر ہر صورت عمل درآمد ہونا چاہیے۔ مسلمان ملکوں کو متفقہ طور پر یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ کسی ایک مسلمان ملک یا علاقے پر حملہ کو پوری مسلم امہ پر حملہ تصور کیا جائے گا اور سب مسلمان ملک مل کر بیرونی جارحیت کا مقابلہ کریں گے۔ اس سلسلہ میں’ میں سمجھتاہوں کہ سعودی عرب کی زیر قیادت 34مسلم ملکی اتحادبہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ اسے مزید مضبوط و مستحکم بنانا چاہیے۔ اسی طرح مسلمان ملکوں کو مزید دفاعی، عسکری، معاشی اور سائنس و ٹیکنالوجی کے معاہدات کرنے چاہئیں۔
او آئی سی کا کردار اور فعالیت امت مسلمہ کی توقعات کے مطابق ہونی چاہیے۔ امریکہ سمیت کسی بھی ملک کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ مسلم ممالک کی نئی سرحد بندی کرنے کی جسارت کرے۔کانفرنس میں موجود قائدین کی طرف سے مظلوم کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی بھی مذمت کی گئی جو کہ یقینی طور پر خوش آئندہے۔ کشمیر میں جس قدر ظلم و بربریت کا بازار گرم ہے اس کیخلاف ہر فورم سے مضبوط آواز بلند ہونی چاہیے۔یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے اور اس کا ادا کرنا ہم پر فرض ہے۔