نیویارک (جیوڈیسک) اولچی فریڈم نامی مشقوں میں امریکہ کے تقریباً 25 ہزار اور جنوبی کوریا کے 50 ہزار فوجی اہلکار حصہ لے رہے ہیں۔ امریکہ اور جنوبی کوریا نے مشترکہ فوجی مشقوں کا آغاز کر دیا ہے۔ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی شمالی کوریا متنبہ کیا تھا کہ یہ مشقیں نا کی جائیں۔
کمیپوٹر پر تخلیق کردہ “اولچی فریڈم” نامی مشقوں میں امریکہ کے 25 ہزار اور جنوبی کوریا کے 50 ہزار فوجی اہلکار حصہ لے رہے ہیں۔ ہر سال ہونے والی ان مشقوں پر شمالی کوریا کی طرف ناراضی کا اظہار ایک معمول کی بات ہے اور وہ ان مشقوں کو شمالی کوریا پر ایک بڑے ممکنہ حملے کی مشق قرار دیتا ہے۔
سیئول اور واشنگٹن کا کہنا ہے کہ یہ مکمل طور پر دفاعی نوعیت کی مشقیں ہیں۔ پیر کو جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق شمالی کوریا کی فوج نے دھمکی دی ہے کہ “اگر شمالی کوریا کے سالمیت کو کوئی خطرہ لاحق ہوا” تو وہ امریکہ اور جنوبی کوریا کو جوہری حملے سے نشانہ بنائے گا۔
حالیہ مہینوں میں جزیرہ نما کوریا میں صورت حال کشیدہ ہو گئی ہے جب کہ بلیسٹک میزائلوں اور جوہری تجربات کرنے کی وجہ سے شمالی کوریا کو اقوام متحدہ کی طرف سے سخت تعزیرات کا بھی سامنا ہے۔ حال ہی میں شمالی کوریا کے ایک اہم سفارت کار اور برطانیہ میں اس کے نائب سفیر تھائی یانگ ہو کے منحرف ہونے کے وجہ سے بھی شمالی اور جنوبی کوریا کے باہمی تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔
شمالی کوریا نے تھائی ہو پر جنسی زیادتی اور مالی خرد برد کے سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا۔ جنوبی کوریا کی صدر پارک گیون ہئی نے پیر کو قومی سلامتی کونسل کو بتایا کہ تھائی کا انحراف شمالی کوریا کی حکمران اشرافیہ میں “شدید اختلافات” کا مظہر ہے۔
دونوں ممالک 1950 کی دہائی میں عارضی جنگ بندی معاہدے کے تحت ختم ہونے والی لڑائی کے بعد سے تکنیکی طور پر حالت جنگ میں ہیں۔ جنوبی کوریا کی یونیفیکیشن کی وزارت کے ترجمان جیونگ جون ہی نے کہا کہ پیانگ یانگ فوجی مشقوں سے متعلق ” غلط بیانی” کر رہا ہے۔
جون ہی نے کہا کہ”شمالی کوریا کی طرف سے سالانہ مشترکہ مشقوں کی مذمت اور ان سے متعلق حقائق کو مسخ کرنے پر افسوس ہوا ہے۔۔۔ جوہری حملے کی دھمکی سے متعلق بیانات قابل افسوس عمل ہیں اور ان سے احتراز کرنا چاہیئے۔”