تحریر: رقیہ غزل پاکستان کو وجود میں آئے ایک عرصہ بیت چکا ہے اور اگر ان بیتے ہوئے سالوں کا غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو ہم پر آشکار ہوگا کہ پاکستان میں بالا دست طبقات اور ہمارے سیاستدانوں کے ذہن جمہوری کلچر سے بہت دور تھے جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ عوام الناس کی آزادی اور جمہوری عمل میں فاصلے بڑھتے گئے کیونکہ پاکستان کو وڈیرہ شاہی اور مادر پدر آزادشاہی کلچر آغاز سے ہی اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا جس کی وجہ سے تعلیمی شعور اور شخصی آزادی کا تصور بھی انہی گھرانوں تک محدود تھا نتیجتاً عوام جمہوریت کا مطلب محض ”ووٹ ڈالنا اور ان ووٹوں کے نتیجے میں جیتنے والی نمائندہ حکومت کو ہی برسر اقتدار رہنا جمہوریت سمجھتے رہے یہی وجہ ہے کہ جب بھی عوام کو جمہوری نظام کی خرابیاں نظر آئیں تو ایک نجات دہندہ کی ضرورت محسوس ہوئی جو کہ مسیحا بن کر ان کے مسائل کا حل کرے مگر ہمیشہ مایوسی کا ہی سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے پاکستان نہ ایک مضبوط جمہوری ریاست بن سکا اور نہ ہی آمریت کا ہی بول بالا ہوا مگر اس سے یہ مطلب ہر گز نہیں لینا چاہیئے کہ پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جو روز اول سے سیاسی تھپیڑے کھا رہا ہے بلکہ آج پوری دنیا میں جمہوریت کا مفہوم اور اغراض و مقاصد بدل چکے ہیں۔
سیاسی طور پر اگر دیکھا جائے تو دنیا میں دو قسم کے جمہوری نظام رائج ہیں ایک وہ کہ جس میں اخلاقی قانون سے بالا تر ہو کر خود ساختہ نظریہ ضرورت کے تحت دوسروں کو آزاد دیکھنا چاہتاہے اگرچہ یہ سوچ ذاتی مفادات کے حصول کے ہی گرد گھومتی ہے اس سوچ میں شخصی آزادی سلب کرنے کے ساتھ اپنے خود ساختہ نظام کی ترویج بھی ہوتی ہے اور دوسرا وہ جو اخلاقی قانون کے تابع ہو کر آزادی اور جمہوری عمل سے سرفراز ہونا چاہتا ہے اس سے آمرانہ طرز کا تصور ابھرتا ہے یعنی یہ طے ہوا کہ جمہوری عمل کی جو خود ساختہ شکلیں ہمیں نظر آتی ہیں ان میں نہ جمہور کے لیے جگہ ہے اور نہ حریت کا کوئی وجود ہے یہی وجہ ہے کہ آج آزادی اورحق خودارادیت کا نعرہ جو کہ پوری دنیامیں گونج رہا ہے اور جو ممالک سب سے زیادہ یہ راگ آلاپ رہے ہیں وہاںبھی اقلیتیں پریشان اور تباہ حال ہیں اور اس متعلقہ انسانی حقوق کے سب سے بڑے دعوے دار بھی خاموش ہیں کیونکہ طاقت کوقانون وانصاف پر غلبہ حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کے نام لیوا بھی جمہوریت کی اساس سے خائف ہیں چونکہ یہ بالواسطہ یابلا واسطہ عوام کی رضا اور شخصی آزادی سے جڑا ہوا ایک ایسا شفاف نظام ہے جس کے پیش نظر حکمرانوں کو آقا نہیں عوام کا خادم بنانا ہے جو کہ مسند پر برا جمان کسی بھی حکمران کو قابل قبول نہیں ہے اس لیے جمہوریت پس پردہ آمریت کی بگڑی شکل بن کر اپنی قدر و قیمت کھو چکی ہے یعنی کہنے کو تودنیاکھوپڑیوں کے میناروں سے باہر نکل آئی ہے مگر اس سوچ کا خاتمہ نہیں ہوسکا جو کہ کھوپڑیوں کے مینار سجا کر نا شتہ کرنے کا سبب بنتی تھی چونکہ آج شعور اور آگاہی کا بول بالا ہے یہی وجہ ہے کہ کہیں نہ کہیں کم و بیش آدھی دنیا میں بغاوت کی فضا پیدا ہوچکی ہے نتیجتاً اکثر دیکھا گیا ہے کہ کسی نہ کسی ریاست میں جمہوریت پسند با شعور افراد حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جس سے مزید مسائل جنم لیتے ہیں عمیق نظری سے دیکھا جائے تو دنیا کو جس تیسری جنگ عظیم کا خطرہ لاحق ہے وہ اسی انتشار اور عدم اعتماد کا پیش خیمہ ہے تا دیر عدم مساوات کی اس فضا کو ختم نہ کیا گیا۔
Democratic system
سوال تو یہ ہے کہ اصل جمہوری نظام سے خواص خائف کیوں ہیں جبکہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جن قوموں میں جمہوری نظام ہوتا ہے وہ دن بدن ترقی کرتی ہیں چونکہ عوام پرسکون اور خوشحال ہوتے ہیں کیونکہ جمہوریت میں عوام کی نمائندہ حکومت عوام کی خدمت اور وطن عزیز کی محبت سے سرشار ہوتی ہے اس لیے مسائل پیدا ہونے سے پہلے ان کا حل تلاش کر لیا جاتاہے ،تمام فیصلے پارلیمینٹ سے پوچھ کر ہوتے ہیں، قانون سازی کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا، عدلیہ اور صحافت مکمل آزاد ہوتی ہے ،آزادی رائے کی آزادی ہوتی ہے ،تمام ادارے اپنے اپنے فرائض خلوص سے سرانجام دیتے ہیں اور ہر ادارہ سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد ہوتا ہے ،یہاں تک کہ وزارت یا اعلی مناصب پراگر کسی کو بھی فائز کیا جاتا ہے تو عوام کی رضا مندی سے اس عمل کو سرانجام دیا جاتا ہے یعنی عوام کی رضامندی ہر معاملے میں اہمیت کی حامل ہوتی ہے جو کہ زبردستی سے نہیں خوشی سے لی جاتی ہے ،اقلیتیوں کو آزادی اور تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں، عوام کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جاتا ہے اور انصاف کا طوطی بولتاہے، احتساب کا مضبوط ادارہ قائم ہوتا ہے جو کہ دلجمعی اور دیانتداری سے اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے تاکہ شفاف نظام کا بول بالا ہواور ملک و قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہو یعنی صرف ایک چیز ہے جو نظام کو شفافیت فراہم کرتی ہے اور وہ ہے ”جواب دہی ” کا خوف جو کہ احتسابی اداروں یا پھر خوف الہی کا ہوتا ہے یعنی طے ہوا کہ جب شتر بے مہار نظام ہوگا’ خدا کا ڈر نہیں ہوگا’کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوگاتو آزادی اور جمہوری عمل کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
حیرت کی بات ہے کہ جس پاکستان کا مطلب لاالہ اللہ قرار دے کر اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا یعنی اس لیے حاصل کیا گیا کہ دنیا میں ایک ایسی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لانا مقصود تھا جو مکمل طور پر قرآن و سنت کے مطابق ہو اور اسلام کا ایسا مضبوط قلعہ ہو جس کی مثال خلافت راشدہ کے دور سے دی جاتی ہواس کا ثبوت اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ بانئی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے انداز حکومت کی بابت وا شگاف الفاظ میں فرمایا تھا کہ” مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کاطرزحکومت کیا ہوگا؟پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں،مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن حکیم نے وضاحت سے بیان کر دیا تھا۔
Quran
الحمداللہ قرآن حکیم ہماری راہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔”اس کے بعد کسی انحراف اور کسی حیل و حجت کی ضرورت نہیں رہ جاتی اور اس بارے ایک اور جگہ فرمایاکہ مملکت کے امورومسائل بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو!مگر افسوس کہ ہم فرنگیوں سے تو آزاد ہوگئے مگر فرنگیوں کے قوانین اور انداز فکر سے نجات نہیں حاصل کر سکے اور یہ تو طے ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے وحدت کو چھوڑا تواپنی اصل کو کھو دیا’ اسلاف کے پیغامات کو دور جدید میں رکاوٹ پایا یعنی اپنی تاریخ سے انحراف کیا تو وقت نے عبرت ناک سزا دی’ یہ سزا ہی تو ہے کہ آج انسانیت شرمندہ ہے دو لوگ جھگڑتے ہیں تو تیسرا صرف ویڈیو بنا کر انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرتا ہے ،سر عام کوئی زخمی ہوجاتا ہے تو لوگ چپ چاپ گزر جاتے ہیں ،زندہ انسانوں کو جلا دیاجاتا ہے اور دوسرے تماشا دیکھتے رہتے ہیں ،عزتوں کے لٹیرے تاک لگائے بیٹھے رہتے ہیں مگر کوئی ان پر ہاتھ نہیں ڈالتا ،نا حق قتل و غارت ہوتی ہے اور دانشوران اور سول سوسائٹی کے باشعور افراد دسوشل میڈیا پر بیٹھ کر تصویریں سیاہ کر کے دکھی سٹیٹس اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں اور شکر ادا کرتے ہیں کہ اس آگ سے ان کے گھر محفوظ رہے اس قدر بے حسی۔۔ پہلے تو نہیں تھی جو آج اس ملک کے استخوانوں میں بول رہی ہے اور کوئی نہیں سوچتا کہ ”یہ گھر جو جل رہا ہے کہیں اس کا گھر نہ ہو ”۔
بہر حال یہ افسوسناک ہے کہ اسلامی معاشرے میں نظریاتی محاذپر انتہا پسندی نے اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں فرقہ واریت اور نسلی تعصب ہر شخص کی رگ و پے میں دوڑنے لگا ہے عدم مساوات کا بول بالا ہے ایک بے ہنگم اور منتشر نسل تیار ہو رہی ہے جسے سوشل میڈیا اورالیکٹرانک میڈیا کی بڑھتی ہوئی بے راہ روی اور مغربی اقدار اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اس پر طرہ یہ کہ جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اقتدار کی مسندوں پر بیٹھے حکمران مذمتی بیانات کے ساتھ میدان میں اتر آتے ہیں اوربد قسمتی یہ ہے کہ وطن عزیز کی محبت سے سرشار اگر کوئی اس پر تنقید کرے تو حکومتی رفقا اور ترجمان بڑی برحمی سے پیش آتے اور پھر ایک روایتی بیان دیا جاتا ہے کہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی سازش کرنے والوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور امن کے راستے میں آنے والوں کو بھی معاف نہیں کریں گے گویا کہ ایسے نقاد ہی تمام جرائم کی جڑ ہیں جو لیڈران کو وقتاً فوقتاً حلف نامے یاد کرواتے رہتے ہیں یا عذاب الہی سے ڈراتے رہتے ہیں یہ بڑی مزحکہ خیز صورتحال ہے یہی وجہ ہے کہ ستر سال پورے ہونے کے بعد بھی ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ہم تہی دست اور مایوس بھی ہیں جبکہ کل ہم تہی دست ضرور تھے مگر مایوس نہیں تھے ہمیں امید تھی کہ ہم کھویا ہوا وقار تشخص واپس پا لیں گے مگر مغربی یلغار کی لپیٹ میں ہمارے افکار اور ہماری روایات سب آچکے ہیں اور آج ہم ستر سال پورے ہونے پر یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا واقعی ہم آزاد ہیں اور جمہوری ریاست کے پروردہ ہیں ؟مگر پھر بھی ہمارا مذہب ہمیں حکم دیتا ہے کہ ”اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوں ” لہذا اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں ۔۔۔کہ بر سر اقتدار لوگ کچھ ایسا کریں کہ ہمار ا آزادی کا بھرم نہ ٹوٹنے پائے !