دمشق (جیوڈیسک) شامی فوج اور کرد جنگجوؤں نے شمال مشرقی شہر الحسکہ میں ایک ہفتے کی جھڑپوں کے بعد جنگ بندی سے اتفاق کیا ہے۔
ایک کرد عہدے دار نے صحافیوں کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ ”سمجھوتے میں شہر میں جنگ بندی اور تمام مسلح فورسز کا انخلاء کا شامل ہے”۔اس عہدے دار کا کہنا ہے کہ یہ جنگ بندی روس کے فوجی حکام کی نگرانی میں طے پائی ہے۔شام کے سرکاری ٹیلی ویژن نے منگل کی دوپہر اس جنگ بندی کی تصدیق کی ہے۔
قبل ازیں ترکی کی فوج نے شام کے شمالی شہر منبج میں توپ خانے سے کرد ملیشیا کے اہداف کو بیس مرتبہ نشانہ بنایا ہے۔ایک ترک عہدے دار نے بتایا ہے کہ فوج نے شام کے سرحدی قصبے جرابلس میں داعش کے اہداف پر بھی بمباری جاری رکھی ہوئی ہے۔
اس ترک عہدے دار کے بہ قول اس کارروائی کا بنیادی مقصد اعتدال پسند باغیوں کے لیے راستہ ہموار کرنا ہے۔واضح رہے کہ ترکی اپنی حدود یا شام یا عراق میں برسرپیکار علاحدگی پسند کرد باغیوں کو اپنی قومی سلامتی کے لیے ایک خطرہ قرار دیتا ہے۔
شامی کرد ملیشیا نے گذشتہ جمعرات کو اسدی فوج کے متعدد ٹھکانوں اور پوزیشنوں پر قبضہ کر لیا تھا جس کے بعد ان کے درمیان جھڑپیں شروع ہوگئی تھیں۔شام میں خانہ جنگی چھڑنے کے بعد کرد ملیشیا اور اسدی فوج کے درمیان اب تک یہ شدید جھڑپیں تھیں۔اس دوران شامی فضائیہ کے لڑاکا جیٹ نے بھی کرد گروپوں کے خلاف پہلی مرتبہ فضائی حملے کیے تھے۔
یاد رہے کہ شام کے شمالی اور شمال مشرقی کرد اکثریتی علاقوں میں سنہ 2012ء میں سرکاری فوج کے انخلاء کے بعد سے کردوں کی قیادت میں ایک خود مختار انتظامیہ نے تمام نظم ونسق سنبھال رکھا ہے۔ان علاقوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔شام کے شمال مشرق میں جزیرہ ہے،شمال میں کوبانی اور شمال مغرب میں عفرین کا علاقہ ہے۔
چند ماہ قبل کردوں اور ان کے اتحادی باغی گروپوں نے اپنا اتحاد تشکیل دیا تھا اور شامی جمہوری فورسز کے نام سے ایک مشترکہ فوجی اتحاد تشکیل دیا تھا۔اس میں کرد ،عرب اور شامی عیسائی شامل ہیں۔
اس اتحاد کو امریکا کی مدد حاصل ہے اور اسی کے جنگجوؤں نے اگست کے اوائل میں منبج میں داعش کو شکست سے دوچار کرنے کے بعد قبضہ کیا ہے۔امریکا اس گروپ کو داعش کے خلاف لڑائی میں اہم اتحادی خیال کرتا ہے۔