تقریبات کی شان مہندی کی مہک

Mehndi

Mehndi

تحریر : رشید احمد نعیم
خوشی کی کوئی تقریب ہو اور مہندی کے رنگ نظرنہ آئیں یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے، شادی بیاہ کا انعقاد ہو یا عید کا تہوار۔۔۔ بچے اور خواتین سنورنے اور سجنے کو رہتے ہیں تیار اور یہ تیاری اس وقت تک ادھوری تصور کی جاتی ہے جب تک اس میں مہندی کے خوبصورت رنگ دکھائی نہ دیں کیونکہ مہندی ایک رنگ کا نام نہیں ہے بلکہ پیار، محبت، چاہت۔ عقیدت، خوشی۔ مسرت۔ اخوت اور امنگ کے رنگوں کے یکجا ہونے سے قوسِ قزح کا جو حُسین و دلکش منظر سامنے آتا ہے اسے کہا جاتا ہے مہندی۔اسے خوشی کے اظہار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔مہندی مشرقی روایات کا ایک ناگزیر اور اہم حصہ ہے۔

صرف سجاوٹ اور آرائش کے حوالے سے نہیں، بلکہ طبی حوالوں سے اسے ہمارے ہاں امتیازی حیثیت حاصل ہے۔مہندی کے استعمال سے خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آرائش و زیبائش کے حوالے سے اس کا استعمال بہت کم ہونے لگا بلکہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا مگر ان خواتین نے اسے اپنی ترجیحات میں شامل رکھا جو کلاسیکل روایات کا شعور رکھتی تھیں کچھ عرصے کے بعد مہندی نے میک اپ کے حوالے سے گویا ایک نیا جنم لیا اور اب اِسے جدید روایت کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ مہندی ایک نیا روپ اختیار کر چکی ہے۔

مہندی کو اگر ایک رسم محض کے علاوہ طبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس کے بے شمار فوائد ہیں۔ صدیوں سے اس کا استعمال کسی نہ کسی شکل میں ضرور ہوتا رہا ہے۔ اس کی تاریخی حیثیت کے بارے میں یہاں تک معلوم ہوا ہے کہ قدیم مصری عورتیں اسے چونے کے ساتھ ملا کر استعمال کرتی تھیں۔ فراعین مصر اس کو بہت زیادہ پسند کرتے تھے چنانچہ وہ اسے ہاتھوں پیروں پر لگاتے اس سے کپڑوں کو رنگواتے۔ دیگر اجزائے لطیفہ کے ساتھ خوشبو کیلئے سلگاتے اور پھر مرنے کے بعد اس کے پتے اپنے مقبروں میں رکھواتے تھے۔ قدیم ہندومذہب اور بدھ عقائد میں بھی اس کی بہت اہمیت رہی ہے۔

 Eid Mehndi

Eid Mehndi

چنانچہ ہندو امراء اپنی دلہنوں کیلئے ایسے سونے کے تاج بنواتے جن پر انتہائی سلیقے کے ساتھ مہندی کے پتے ایک حاشیے کی صورت میں لگائے ہوئے ہوتے تھے۔ اسی طرح یونانیوں کے ہاں بھی مہندی اشیائے مقدسہ میں شامل تھی۔ عید، شب بارات، تہوار، شادی کے دن میں دلہن اور لڑکیاں سنورنے، سجنے میں مہندی کو بہت اہمیت دیتی ہیں۔ عید تہوار پر ہاتھوں کو مہندی کے نت نئے ڈیزائن اور خوبصورتی سے لگانا ہماری تہذیبی روایات کا قدیم حصہ ہے۔

آج مہندی لگانا اور ڈیزائن بنانا محض ایک شوق نہیں بلکہ ایک پرکشش پروفیشن کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور سینکڑوں خواتین کے روزگار کا وسیلہ کہلاتا ہے۔ اِن دنوں مہندی میں بہت سے ڈیزائن آ چکے ہیں ان میں زیادہ تر اسٹائلش ڈیزائن مقبول ہیں۔ مہندی کے ڈیزائن میں نمایاں تبدیلی آئی ہے اور اب مہندی سے ڈیزائن کچھ اس طرح کا بنایا جاتا ہے کہ ہتھیلی کا زیادہ تر حصہ خالی رہے اور ہتھیلی کا سادہ حصہ مہندی کے سرخ کمبی نیشن کے ساتھ زیادہ خوبصورت معلوم ہو۔

مہندی کس طرح لگائی جائے ؟
٭ـ مہندی لگانے سے پہلے ہاتھوں کو اچھی طرح صابن سے دھو کر صاف اور خشک کر لینا چاہیے۔
٭ـ ہمیشہ معیاری کمپنی کی کون استعمال کریں۔
٭۔ بہت زیادہ عرصے رکھی ہوئی کون کبھی استعمال نہ کریں
٭۔ سنگھار وغیرہ کی مقبول برانڈز کو استعمال کریں
٭۔ کسی نئی آزمائش میں پڑ کر اپنا فنکشن خراب کرنے کی بجائے پہلے سے آزمودہ کون مہندی کو استعمال کریں۔
٭ـ مہندی لگانے کے بعد اس کے اوپر سے کوئی چیز مت لگائیں
٭۔ اکثر خواتین سوکھنے پر لیموں یا چینی کا پانی اوپر سے لگاتی ہیں یا وِکس کا لیپ کر دیتی ہیں۔ مگر اس سے مہندی پھیلتی ہے اور اسے لگانے کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہوتا لہٰذا مہندی کے اوپر سے کوئی چیز نہ لگائیں۔

٭ـ مہندی سوکھ جانے پرہی دھو کر خشک کر لیں۔
٭ـ بہتر نتائج کے لیے مہندی ہمیشہ تقریب سے دو روز پہلے لگائیں کیونکہ مہندی کا رنگ دو دن کے بعد نکھر کر سامنے آتا ہے اور مہندی لگا کر ہاتھ دھونے کے بعد ہی مہندی کی رنگت نکھر کر آہستہ آہستہ ساتی ہیمنے آ۔
بچیاں اور خواتین ہاتھوں، پیروں اور بازووں کے علاوہ گردن اور کمر پر بھی مہندی کے ڈیزائن لگواتی ہیں۔ عربی مہندی قدرے موٹی اور زیادہ جگہ گھیرتی ہے جبکہ حیدر آبادی کراچی کے مہندی کے ڈیزائن پتلے، باریک اور بیل اسٹائل سے لے کر پورے ہاتھ، بازو اور پیروں پر ایک ہی طرح کی نقش و نگار بنائے جاتے ہیں۔ اٹالین میں چوکور اور گول زایوں سے نقش و نگار بنائے جاتے ہیں۔ یمنی مہندی قدرے عربی اسٹائل سے ملتی جلتی ہے۔

Mehndi Design

Mehndi Design

ان تمام اسٹائلز کے باوجود ایک خاص مشرقی انداز قدرے جدیدیت کے ساتھ ہر خاص و عام میں مقبول ہے۔ دائرہ سٹائل، اس میں لڑکیاں اور خواتین پیروں اور ہاتھوں کی پوروں کو مہندی سے کور کر لیتی ہیں اور ہتھیلی کے درمیان میں ایک دائرہ بنا لیا جاتا ہے۔ اس دائرے کے گرد چھوٹے دائرے یا پھول بنا کر ہتھیلی کو سجایا جاتا ہے بلکہ الٹے ہاتھ پر بھی ایسا ہی ڈیزائن بنایا جاتا ہے۔ یہ ڈیزائن ہر خاص و عام میں یکساں مقبول ہے۔

جدید تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ مہندی کے پتوں میں 12 سے 15 فیصد رنگ پایا جاتا ہے۔ اس کے پتے دافع تعفن وبدبو ہیں۔ اگر ان پتوں کو یا پھولوں کو تکیے میں بھر کر بے خوابی کے مریض کے سر کے نیچے رکھا جائے تو نیند کی مقدار میں اضافہ ہوجاتا ہے اور نیند گہری اور پرسکون ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں ایک گوند پائی جاتی ہے جو ایتھر اور الکحل میں حل پذیر ہے۔ اس کے بیج بھی پتوں کی مانند دافع تعفن ہیں۔ ایسا درد جو حرارت کی زیادتی کی وجہ سے ہو وہ مہندی کے پھول سونگھنے سے جاتا رہتا ہے۔

پیروں میں درد کی شکایت اکثر مہندی لگانے سے ختم ہوجاتی ہے۔ اعصاب کو تحریک دیتی اور زخموں کو خشک کرتی ہے۔ پیروں پر لگانے سے جلد نرم ہوتی اور اگر ناخن پر چوٹ لگنے کے بعد وہاں پر سیاہ خون جم جائے اور ناخن سیاہ ہوجائے تو اس کے لگانے سے ناخن صاف’ چمکدار اور خوشنما ہوجاتے ہیں۔ مہندی ایک شگن ہے اس کی ہلکی ہلکی بھینی بھینی خوشبو اور گہرا رنگ ہتھیلیوں کو خوبصورت اور پرکشش بنانے کے علاوہ شخصیت کے نکھار میں بھی اضافے کا باعث بنتا ہے۔ مہندی کی مہک تقریبات کی شان تصور کی جاتی ہے۔

Rasheed Ahmad Naeem

Rasheed Ahmad Naeem

تحریر : رشید احمد نعیم
چیف ایگز یکٹو حبیب آباد پریس کلب
سینئر ممبر کالمسٹ کونسل آف پاکستان
03014033622
rasheed03014033622@gmail.com

Mehndi

Mehndi