واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکہ نے بدھ کے روز ترکی کے مطالبے کو سختی سے مسترد کر دیا ہے کہ مسلم عالم دین فتح اللہ گولن کو فوری طور پر ملک بدر کردیا جائے جن پر ترکی نے گذشتہ ماہ کی ناکام فوجی بغاوت کا الزام عائد کیا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ امریکہ کو ثبوت درکار ہے کہ وہی بغاوت میں ملوث ہیں۔
امریکی نائب صدر جو بائیڈن، جو اِس وقت ترکی کے ایک روزہ دورے پر انقرہ میں ہیں، ایک اخباری کانفرنس کو بتایا کہ امریکہ کا ’’اِس بات میں کوئی مفاد نہیں کہ ایسے کسی فرد کا تحفظ ہو جس نے اُس کے کسی اتحادی کو نقصان پہنچایا ہو‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ گولن کی ناکام بغاوت سے تعلق کے بارے میں دعوؤں کا تجزیہ کرنے کے حوالے سے امریکہ نے ترک حکام سے تعاون جاری رکھا ہوا ہے، جس میں 240 افراد ہلاک ہوئے۔
بائیڈن نے کہا ہے کہ ترکی نے امریکہ کو 75 صفحات پر مشتمل اطلاعات روانہ کی ہیں جن میں 75 برس کے گولن کی ’’بغاوت سے قبل مبینہ حرکات درج ہیں، ہمیں ابھی تک حوالگی کی کوئی باضابطہ درخواست موصول نہیں ہوئی، ناہی ترکی نے کوئی ثبوت پیش کیا ہے جس کا ناکام بغاوت سے تعلق ثابت ہوتا ہو‘‘۔
بائیڈن نے اخباری کانفرنس کو بتایا کہ وہ ملک بدری کی درخواست میں تاخیر کے معاملے پر ترکی کی امریکہ پر برہمی کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن، کہا کہ امریکی عدالت کو اس بات پر غور کرنا چاہیئے آیا اُن کی گرفتاری اور ترک حکام کو حوالے کرنے کی باضابطہ قانونی وجوہات موجود ہیں، جس کا دارومدار دونوں ملکوں کے مابین حوالگی کے معاہدے پر ہوگا۔
گولن سنہ 1999سے امریکہ کی شمال مشرقی ریاست، پینسلوانیا کے ایک گھر میں خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، اور اُنھوں نے صدر رجب طیب اردوان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کسی کارروائی میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔
ترکی نے 80000 سرکاری کارکنوں، ججوں، تعلیم دانوں اور اسکول اساتذہ کو گرفتار یا معطل کیا ہے، جن کے بارے میں اُس کا خیال ہے کہ وہ گولن کے لیے ہمدردی رکھتے ہیں یا کسی طور پر بغاوت کی کوشش میں ملوث رہے ہیں، جس کی کوشش فوج کے باغی عہدے داروں نے کی تھی۔
بغاوت کی رات اردوان تعطیل پر تھے۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ قید کیے جانے کی کوششوں سے بال بال بچے جب اُن کی حکومت سے وفادار افواج نے منحرفین کی جانب سے اُنھیں نکالنے کی کوششوں کو ناکام بنایا۔
بائیڈن نے بغاوت میں امریکی سازش کے کسی تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنھوں نے یہ حملہ کیا وہ ’’بزدل، غدار‘‘ ہیں۔
بقول اُن کے ’’ہمیں پہلے سے اس کا کوئی علم نہیں تھا۔ جو کچھ ہوا، اُس سے امریکہ کے لوگ نفرت کرتے ہیں۔ ترک عوام کا امریکہ سے زیادہ اور کوئی بڑا دوست نہیں‘‘۔