تحریر : منظور احمد فریدی کروڑ ہاشکر اس رب لم یزل کا جس نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اپنے خلیفہ کا تاج پہنایا اور اسے زمین پر اپنا نائب مقرر فرمایا اور پوری کائنات کو اسکے لیے مسخر فرما دیا چیونٹی جیسی معمولی جسامت سے ہاتھی سے دیو ہیکل پہاڑ جتنے جانداروں کو بھی اللہ کریم نے انسان کا تابع کرکے واقعی اسے اپنا نائب ہونے کا ناقابل تردید ثبوت دیا لاکھوں بار درود وسلام جناب محمد مصطفی کریم ۖ کی ذات والا صفات پر کہ جنہوں آدم خور انسانوں کو انسانیت کا درس دیکر انسانی قدروں کو اس بام تک پہنچایا کہ فرشتہ ساجد اور انسان مسجود کے درجہ پر فائز ہوا پوری دنیا میں اسلام سے پیارا آسان فہم انسانی فطرت کے عین مطابق دین موجود ہے نہ تھا اور انشا اللہ نہ ہی ہوگا اللہ اور اسکے انبیاء کا پسندیدہ ترین دین اللہ کی تصدیق کے ساتھ ہے اسلام بنی نوع انسان کو برابری کے حقوق جا درس دیتا ہے وہ عربی ہو یورپی ہو ہندوستانی ہو یا پاکستانی اللہ کریم کے نزدیک وہ بس انسان ہے۔
اگر وہ اللہ کی بنائی ہوئی حدودو قیود یعنی اسلام میں داخل ہوجائے اور تقویٰ کی سیڑھی سے اللہ کا قرب بھی حاصل کرلے تو پھر وہ کوئی بھی ہو اللہ اسے اپنا محبوب بندہ بنا لیتا ہے تعلیم بندہ کو اللہ کا قرب حاصل کرنے زندگی میں جینے اخلاق اور کسب سکھاتی ہے آج تعلیم کو کسب سے جوڑ دیا گیا ہے اور ہر طالبعلم کا مقصد تعلیم صرف روزگار تک محدود کردیا گیا ہے حقیقت میں یہ دو مختلف چیزیں ہیں جسکی زندہ مثالیں ہمارے معاشرہ میں موجود ہیں۔
جیسے ایم اے پاس بے روزگار نوجوان جس کا مطمع نظر اپنی تعلیم کے مطابق نوکری ہے سے وہ ان پڑھ کارمکینک بہتر ہے جو ان پڑھ ہونے کے باوجود اخلاق بھی اچھے رکھتا ہے روزگار میں بھی اپنے اہل و عیال کا کفیل ہے بنیادی وجہ تعلیم کا فقدان نہیں مقصد تعلیم غلط ہوگیا میں نے بالکل ان پڑھ مہذب لوگ بھی دیکھے اور ڈاکٹریٹ کرکے جاہل بھی کسی بھی ریاست خاص طور پر اسلامی ریاست میں رعایا کے لیے دی جانے والی سہولتوں میں سے خوراک صحت اور تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
Pakistani Hospital
مگر صد افسوس کہ ملک عزیز میں آج اولذکر دونوں شعبے ایک مافیا کے ہاتھ میں ہیں ہمارے حکمران تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے مشیران کی سب اچھا کی رپورٹس پر مطمئن ہیں اور یہ مافیا تعلیم اور صحت کو ایک انتہائی منافع بخش انڈسٹری کی شکل میں ڈھال چکے ہیں پنجاب میں دارلخلافہ لاہور میں موجود ایسے ہزاروں ہسپتال موجود ہیں جو بڑے بڑے ناموں کے عوض موت بانٹنے میں مصروف ہیں اسپیشلسٹ ڈاکٹرز کی بھاری فیسوں لیبارٹری ٹیسٹوں اور الٹراسائونڈ و دیگر ایسے بل جو ایک عام انسان تو ادا ہی نہ کرسکتا ہے وصول کیے جاتے ہیں اور لاکھوں روپے روزانہ بل دیکر مریض کو موت کے منہ میں ڈال دیا جاتا ہے مگر موثر قانون نہ ہونے سے یہ انڈسٹری روز بروز ترقی کی جانب گامزن ہے جو پاکستان کے اداروں مے معیار پر پورا نہیں اترتا وہ اپنے پیسے کے بل بوتے بیرون ملک جا کر ڈاکٹر بن جاتا ہے۔
کرغستان چائنہ اور سائپرس کی یونیورسٹیاں پاکستان کی پرائیویٹ یونیورسٹیوں سے کہیں کم فیس کے عوض ڈاکٹر کی ڈگر جاری کردیتی ہیں پھر وہ ڈاکٹر بھی اس انڈسٹری کا حصہ بن کر پیسہ بنانے والی مشین بن جاتا ہے یہی حال ہمارے تعلیم کے شعبہ کا ہوچکا ہے ہمارے طالبعلمی کے دور میں ہمارے محترم اساتذکرام ٹیوشن پڑھا کر پیسے لینا معیوب بلکہ گناہ سمجھتے تھے ان اساتذہ کا احترام اور عزت آج کے اساتذہ کے نصیب میں نہیں اور آج ننانوے فی صد استاد طلباء سے ڈنکے کی چوٹ پر ٹیوشن فیس وصول کرتے ہیں بلکہ سکول کے کلاس روم میں تو انہیں نصاب پڑھانا ہی نہیں آتا سونے پہ سہاگہ بڑے نام والے سکولوں نے کیا جنہوں نے اب دیہات کی سطح پر اپنی برانچیں دینا شروع کردی ہیں۔
بڑے بڑے سکولوں کی فرنچائز ہر وہ شخص حاصل کرسکتا ہے جس کے پاس پیسہ ہو تعلیم معیار کسی اور چیز کی ضرورت نہیں اور فرنچائزی سکولوں میں تعلیم کا حشر وہی ہے جو کسی عام پرائیویٹ سکول میں ہوتا ہے انڈر میٹرک مالک مڈل پاس پرنسپل اور خوبصورتی میں اول آنے والی فی میل ٹیچر کنٹرولر طلباء پڑھنے کے بجائے رومان سیکھتے ہیں اور ایسے اداروں کے مالکان لاکھوں سے اربوں میں کھیل رہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر ریاست کے حکمران رعایا کو یہ سہولیات مہیا نہیں کرسکتے تو قانون سازی کے ذریعے اسے مافیا سے بچا کر اہل لوگوں کے ہاتھ میں دے تاکہ اگر عوام کو یہ سہولتیں پیسے دے کر بھی ملیں تو کم ازکم معیا ر تو ہو۔