تحریر : انجینئر افتخار چودھری بھائی آپ گھر واپس آ جائو کس کی ہمت ہے کہ آپ جیسے محب وطن کو پاکستان آنے کے بعد ہاتھ بھی لگائے۔میرے پیارے بھیا آپ نے پرسوں تقریر میں جنرل بلال اکبر کو گالیاں دیں فوج کی ایسی کی تیسی کر دی اور کل آپ نے دل کی اتھاہ گہرائی میں جا کر معافی مانگ لی۔یہی بڑے لوگوں کی نشانی ہوتی ہے۔آپ اس سے پہلے ہندوستان گئے وہاں جا کر آپ نے ایک ایسی تقریر کی جس سے پاکستان کی چولیں ہل گئیں۔آپ نے جب یہ کہا کہ ہمارے بزرگوں نے پاکستان بنا کر غلطی کی تو بھائی جان میرا دل خوش ہو گیا اس لئے کہ ہم لوگ غلط لوگوں کی اولاد نکلے بھائی ماں نے مجھے بتایا تھا کہ جب سبز ہلالی پرچم نہیں ہوا کرتے تھے پاکستان کا آزاد ہورہا تھا تو ان علاقوں کے لوگوں نے جد وجہد آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا جنہیں یقین تھا کہ وہ پاکستان کا حصہ بھی نہین بنیں گے۔بھائی ماں نے یہ بھی بتایاتھا کہ جب سبز کپڑا نہ ملا تو اگست کے مہینے میں مکئی کے ٹانڈوں کو لے کر گلیوں میں نکل آتے تھے۔
یوپی سی پی والوں کو علم تھا کہ وہ پاکستان کا حصہ نہیں بننے والے تو بھائی وہ لوگ کس لئے پاکستان کا مطلب کیا کا نعرہ بلند کرتے رہے ماموں نے یہ بھی بتایا کہ ہم بٹ کے رہے گا ہندوستان اور لے کے رہیں گے پاکستان کا نعرہ لگایا کرتے تھے۔پیارے بھیا آپ پاکستان آ جائو یہاں مل کر حالات کا مقابلہ کرتے ہیں ۔آپ نے یہ کہا کہ بھوک ہڑتالی لوگوں کی وجہ سے آپ تنائو کا شکار ہو گئے۔برادر الطاف حسین یقین کیجئے ہم نے آپ کے لئے دیواروں پر لکھ دیا کہ قائد کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے۔ ہم تو تین تلوار میں بیٹھے پی ٹی آئی کے کارکنوں کا بھی صفایا کرنے والے تھے اللہ بھلا کرے عمران خان کا جس نے اپنے کارکن ہمار ے ہاتھوں سے شہید ہونے سے بچا لئے۔
ہماری کوششیں دیکھئے ہم نے کسی کو سر نہیں اٹھانے دیا جو بولا اس کی گردن مار دی۔آپ ہی کا فرمان تھا نہ کے جائو جا کہ تکبیر کے صلاح الدین کا سر لے لو دیکھا ہم نے کیسے وار کیا اور اس صلاح الدین کو جو مضبوط پاکستان کی ؤواز تھا جس نے کرپشن کے خلاف عمران خان سے بہت پہلے آواز اٹھائی تھی ہم نے اس کا کام تمام کر دیا اور وہ جو حکیم سعید تھے جن کے بارے میں ان کے بھائی حکیم عبدالحمید نے کہا تھا بھائی نہ جائو پاکستان ادھر ہندوستان میں ہی رہو انہوں نے انہیں جواب دیا بھیا ایک مدینہ اور بن رہا ہے میں اس مدینے کا باسی بننے جا رہا ہوں آپ اس نگر کو چھوڑیں آئیں پاکستان چلتے ہیں بھائی وہ آگئے آپ نے فرمایا تو ہم نے ان کو واصل جنت کر دیا۔وہ حکیم سعید جو اردو بولنے والوں کا ہی نہیں پورے پاکستان کا ہیرو تھے۔بھیا ہم نے پی ٹی آئی کی آپا کا بھی صفایا کر دیا۔
Hakeem Saeed
آپ کو اچھی طرح یاد ہو گا آپ کے پاس ایک چھوٹی سی موٹر بائیک ہوا کرتی تھی کراچی یونیورسٹی میں آپ نے پہلی بار مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بنائی تھی۔میرا خیال ہے بھیا آپ نے نفرت کا پہلا پتھر اسی دن مارا تھا۔پھر چل سو چل ١٩٨٥ میں نفرت کی ایک بڑی واردات ہوئی بشری زیدی کسی گاڑی کے نیچے آ گئی اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ وقت بڑی ظالم چیز ہے اور تعصب تو سمندروں کے پانی کو بھی کڑوا زہریلا بنا دیتا ہے۔تعصب کی اس وادی میں سب سے پہلے آپ نے سن کا دورہ کیا جی ایم سید کے ساتھ نفرت کی آواز میں آواز ملا دی۔وہ جی ایم سید جو سندھ میں غیر سندھیوں کے خلاف ایک لٹکتی تلوار تھے جو خود تو حجاز سے آئے مگر چند سو کلو میٹر سے آنے والوں کو اجنبی قرار دیا۔بھیا آپ کو تو علم ہے خرچہ پانی ہمارا کبھی بھی مسئلہ نہیں ر ہا پڑوسی ملک نے ہمارے اوپر ہاتھ رکھ دیا ان کے ٹرینگ کیمپ ہمارے کام آئے ہم نے بھی نوے کی دہائی میں انھی مچا دی۔ غیر تو غیر اپنوں کو بھی نہ چھوڑا ہم نے عظیم طارق عمران فاروق غرض کس کس کا نام لوں۔
کراچی سے بوری بند لاشیں اندرون ملک بھیجنا شروع کر دیں کئی کن ٹٹے ہماری صفوں میں شامل ہو گئے۔مجال گئی کہ کوئی ہمارے سامنے چوں چراں بھی کرتا ہم جس جانب نکلتے سانڈ کی طرح نکلتے کراچی میں بھتہ خوری جو دراصل زر تعاون تھا ہمارے ہی دم قدم سے ہمارے پائوں میں آ جایا کرتا تھا۔کسی کی مجال ہے کہ بھائی ہمارے سامنے کوئی چیں بھی کرتا،ہم بڑے منظم تھے سیکتر انچارج کمانڈر اور ذمہ داران کی ایک فوج تیار ہوئی جس کے لئے ہم پڑوسی ملک کے انتہائی مشکور ہیں ویسے بھائی ہم کتنے چالاک تھے شپنگ کی منسٹری لی اور کنٹینر کے کنٹینر غائب کر گئے۔اللہ تعالی کے رنگ دیکھیں وہ بھی کیا دن تھے ایک نے پیسے نہیں دئے ہم نے اس کی پوری فیکٹری جلا دی ٢٢٩ لوگ بھون کے رکھ دئے بھائی یہ تھی ہماری تابع داری آپ کے ایک اشارے پر جان لڑا دی۔
الیکشن جیتنا ہمارے لئے کیا مشکل تھی ادھر اسمبلیوں میں اللہ کا کرم تھا بی بی ہو یا میاں ہمارے سوا دم نہیں مار سکتے تھے۔اس پر اللہ کا ایک اور بڑا کرم ہوا کہ حضرت مشرف کی حکومت کا بھی ہم ناک کا بال بنے رہے۔ہم نے ایک طرف قتل و غارت اور خونریزی کی انتہا کر دی تھی دوسری جانب پل سڑکیں نالیاں یونیورسٹیاں ادارے ہسپتال بھی بنائے اس لئے پاکستانی قوم اتنی بے وقوف قوم ہے کہ اس کے نظرئے پر چھری سے وار کردو اسے کچھ نہیں ہو گا اس کو نلکا لگوا دو اسے کوکا کولا پلا دو یہ قوم مست رہتی ہے اسے یہ علم نہیں ہوتا کہ اس کے پیچھے اس کے ملک کے قتل کے منصوبے ہیں۔انہیں کیا غرض ٢٠ روپے کی میٹرو دے دو ووٹ ایفی ڈرین والے کو دے دیں گے۔
12 May Karachi Violence
١٢ مئی کو کراچی کی سڑکوں پر جو قتل و غارت کی گئی اسی شام نشے میں ٹن سربراہ اور صدر ڈی چوک میں کرائے کی ریلی سے مخاطب تھا اس نے ہماری غنڈہ گردی کو ریاست کی طاقت قرار دیا۔یہ الگ بات ہے کہ وہ چوہے کی طرح چھپتا چھپاتا ملک سے باہر بھاگ گیا۔بھاگ گیا ورنہ گردن لمبی ہو جاتی۔بھائی اب حالات اور ہیں اب ایک سر پھروں کی ٹولی ہے سنا ہے کراچی آپریشن کا انچارج ایک گجر ہے جس کا نام بلال اکبر ہے یہ بڑی دلیر قوم ہے ایک ڈنڈے سے ہزار بھینسوں اور سانڈوں کو سیدھا کر دیتے ہیں آپ دھاڑے کل یہ رات کو ٩٠ آن پہنچا یہ وہ ٩٠ ہے جہاں لوگ سجدہ دینے آتے تھے۔پتہ نہیں جنرل نصیر اللہ بابر کی روح اس میں سرائت کر گئی ہے۔گھبراتا ہی نہیں اور ڈرتا بھی نہیں جنرل راحیل شریف نے اس پر بھرپور اعتماد کیا ہوا ہے۔
بھائی آپ نے تقریر کر کے پوری قوم کو متحد کر دیا ہے۔لوگ ووٹ تو ہمیں دے دیتے ہیں مگر پاکستان کو گالی دینا انہیں اچھا نہیں لگتا۔ اس قوم کی یہ خوبی ہے کہ آفت آئے زلزلہ آئے یہ اکٹھی ہو جاتی ہے ۔آپ نے کچھ زیادہ ہی پی کر تقریر کر ڈالی جس نے اس قوم کو اکٹھا کر دیا۔ بھائی فاروق ستار بڑا چالاک ہے اس نے آپ سے الگ ہو کر ایم کیو ایم بچا لی۔جیسے ہی اس پر ہاتھ ڈھیلے ہوئے اس نے آج پھر آپ کو گرو مان لیا۔بھائی ویسے ایک بات بتائوں میں نے شروع میں غلط کہا تھا یہاں اب مت آنا کراچی کی رونقیں بحال ہو چکی ہیں شہر واپس پرانے دور میں جا چکا ہے اب بندر روڈ کی شانیں اور رونقیں پہلے سے بھی زیادہ ہیں کلفٹن پر کئی امریکہ واری۔
لوگ اب سمجھ گئے ہیں کہ زبان کی وجہ سے ہم اب نفرت کا شکار نہ ہوں گے سندھی پنجابی بلوچی سب بھائی ہیں انہیں علم ہوگیا ہے کہ انڈیا کا مودی کشمیر کے بدلے لے رہا ہے اسرائیل امریکہ ایران افغانستان کو بلانے کا کوئی فائدہ نہیں۔پٹاخہ کس کام آئے گا۔ہمت اور جرات کی جو کمی تھی وہ اب موجود ہے۔گرچہ لاہوری لیڈر اور دیگر اندر سے ہمارے ساتھ ہیں مگر وقت آنے پر ان کے پیچھے مکھی بھی نہیں کھڑی ہوگی انہیں بھی اس بات کا علم ہے نہ وہ طیب ہیں اور نہ ہی یہاں کی فوج ترک فوج ہے۔بھیا مت آنا اس دیس میں یہ دیس اب وہ نہیں رہا اب کے جشن آزادی پر تو سبز کپڑا بھی نہیں ملا لگتا ہے اب کی بار بھی لوگ مکئی کے ٹانڈوں کے ساتھ باہر نکلے۔بھائی اب اگر نشے سے باہر نکلے تو میرے ساتھ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا کر پھر ٹن ہو جائو۔