تحریر : مقصود انجم کمبوہ یہ حقیقت اظہر من شمس ہے کہ وطن عزیز میں یوں تو کئی ایک سیاسی عامل باوے ہیں۔ سابق پیر پگاڑا جو اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں، ان کا تو کوئی ثانی نہ تھا،ان کے بعد عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کا نام آتا ہے، گو انکی بیشتر پیش گوئیاں کھوہ کھاتے چلی جاتی ہیں مگر وہ جب بھی کسی ٹی وی چینل پر تشریف لاتے ہیں تودور کی کوڑی لاتے ہیں، ہر چینل کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ان کے چینل پر آکر سیاسی طنزو مزاح کر کے اینکرز کو بلکہ سامعین و ناظرین کو محفوظ کر کے اپنا سیاسی قد بڑھائیں، بھی انکے مداحوں میں سے ایک ہوں، جو انکے پروگرام کو دیکھنے کا متمنی رہتا ہو، افسوس کہ چند ایک جملے سن کر جب لطف آنے لگتا ہے تو لائٹ چلی جاتی ہے، کبھی کبھار تو ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ حکومتی مشینری کے کل پرز ے لوڈشیڈنگ کرکے شیخ رشید کی کڑوی کسیلی باتوں پر پانی پھیر کر ہمارا مزا کرکرا کر کے اپنا غصہ ٹھنڈا کرتے ہیں۔
شیخ رشید کے سیاسی عامل ہونے میں رتی بھر بھی شک نہیں،وہ جب بھی سرکار کی چھٹی ہونے کی نوید سناتے ہیں توکوئی نہ کوئی ایسا سانحہ رونما ہوجاتا ہے ،جس سے حکمرانوں کے دن بڑھ جاتے ہیں،جن دنوں تحریک انصاف کے دھرنے زوروں پر تھے تو پشاور کا سانحہ اٹپکا،اب کی بار سانحہ کوئٹہ نے آن لیا ،یہ حکمرانوں کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے حکمرانی کے دن ابھی پورے نہیں ہوئے،2018 کے بعد بھی ان کی کامیابی یقینی نظر آ رہی ہے، کچھ سیاسی عامل باووں کو کہتے سنا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم ان موقعوں پر دھماکے کر کے پاکستانی وزیر اعظم کے مخالفوں کی سیاسی تحریکوں اور دھرنوں کا اثر زائل کر دیتے ہیں،اس میں کتنی سچائی ہیں، یہ تو اللہ پاک ہی بہتر جانتا ہے۔
Predictions
میرے شہر میں بھی نواب زادہ نصراللہ (مرحوم) پی ڈی پی کے چیر مین کا ایک چیلا ہے،جس نے میرے ڈیرے پر تشریف لا کر آج تک جتنی بھی پیش گوئیاں کیں وہ سب کی سب سچ ثابت ہوئیں۔میاں نواز شریف اور بینظیر کی حکومتوں کے ڈھڑن تختے کے بارے میں انہوں نے جوپیش گوئی کی ،وہ من وعن سچ ثابت ہوئی اور میرے کالموںکو جلا بخشی،روزنامہ مشرق کے ایڈیٹروں نے مجھے سکالر ہونے کا اعزاز بخشااور میرے تجزیاتی کالموں کو ہر بار پزیرائی ملی،چیف ایڈیٹر ہو یا ایڈیٹرسب نے میرے تجزیاتی کالموں کو سراہا۔سابق وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو(مرحومہ)کی حکومت کے تحلیل ہوجانے کا کالم جب میں روزنامہ مشرق کے چیف ایڈیٹرجناب عالی رضوی (مرحوم)کے دفتر لے کر گیا تو انہوں نے کالم کا بغور مطالعہ کرنے کے کے بعدمجھے واپس کرتے ہوئے کہا سوری مقصود انجم کمبوہ جی یہ میں اپنے اخبار میں شائع نہیں کر سکتا،خدا کے لیے مجھے نمک خرامی سے بچاواور جاو کسی اور اخبار میں شائع کروا لو،لہذا ان کے دفتر سے نکلا اپنے دوست ،روزنامہ جہاں نما کے چیف ایڈیٹر طارق فاروق کے ہاں جا پہنچا،حال احوال پوچھنے کے بعد میں نے اپنا کالم انکی میز پر رکھ دیا۔
انہوں نے کہا کمبوہ صاحب آج کیا تحریری میزائل لائے ہو،میں نے کہا پڑھ لو۔ پڑھنے کے بعد انہوں نے بھی کالم واپس میرے ہاتھوں میں تھما دیااور کہا کہ میں پی پی کے خلاف اپنے اخبار میں کچھ شائع نہیں کرنا چاہوں گا،میں نے ان کو ان کے فرائض یاد کروائے اور کہا کہ یہ تو پھرآزادی صحافت تو نی ہوئی،یہ سن کرانہوں نے غصے میں کالم پکڑااور کاتب کو بلا کر کہا ،ابھی فوری کالم کی کتابت کرکے مجھے دو،اورمجھے کہا کہ چلو جی آج ہم اپنا ہی لہو پی لیتے ہیں،جس روزکالم شائع ہو ا،چند یوم بعد پی پی کی حکومت چل بسی،بھر میرے دوست سیاسی عامل باوا نے انکشاف کیا کہ کمبوہ جی یہ کالم بھی لکھ دو کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے اقتدار کے دن گنے جا چکے ہیں،غالبا 13نومبر کی تاریخ بتائی مگر اللہ کو منظور نہ تھا۔
Political Power
اسکے اقتدار کے دن بڑھ گئے بالاخر وہ اقتدار کھو بیٹھے۔چند ماہ بیشتر کی بات ہے کہوہ پھر دور کی کوڑی لے کر آئے مگر وہ تاریخ بھی خالی گئی۔اس کالم میں میں جو ”بچہ جہمورا کی پیش گوئیاں ”کے نام سے مختلف اخبار میں شائع ہوامیں میں نے ن لیگ کے کلیدی عہدیداروں کو مشورہ دیا تھا کہ اگر وہ کالے بکروں کا صدقہ دے دیں تو بلا ٹل سکتی ہے لہذا ہوا وہی۔اب پھر مجھے انہوں نے ایک کالم لکھنے کو کہا ہے،جس میں انہوں نے اپوزیشن کو ہاتھ ہولا رکھنے کو کہا ہے ، انہوں نے پیش گوئی کی ہے کہ گو میا ں برادران کے سیاسی ستارے گردش میں ہیں لیکن وہ پیروں فقیروں کو مانتے ہیں ان کے جنتر منتر چلا کر سیاسی بلاوں،چڑیلوںاور جنوں کو کوئی کارروائی ڈالنے نہیںدے رہے۔
اس لیے بہتے ہو گاکہ وطن عزہز کی ترقی و خوشحالی کی راہیں روکنے سے باز آ جائیں،جو میگا پراجیکٹس رواں دواں ہیں ،انکو چلنے دیں،گو یہ سب پراجیکٹس کمیشن دے رہے ہیں اور روزبروزمہنگے ہوتے جا رہے ہیں،انہیں مکمل ہونے دیں۔اس سیاسی باوا کا نام میرے شہر میں عرف بی بی سی کے نام سے مشہور ہے،،انہیں اس شہر کا بچہ بچہ جانتا ہے،وہ تحصیل بناو تنظیم کے بانیوں میں ایک ہیں اور ان کی بہت سی سیاسی وسماجی خدمات ہیں،وہ غریبوں کے سرکاری مسائل حل کروانے میں گہری دلچسپی لیتے ہیں،اوراعلی انتظامی افسران سے اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔