تحریر: شیخ خالد زاہد ہر روز ہم پاکستانیوں کو کوئی نا کوئی اپنی تبدیلی کی بھینٹ چڑھا رہا ہوتا ہے۔ ہم ہر روز وہی ڈر اور خوف لئے جیتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں “وی آئی پی کلچر” کوئی چھوڑنے کو تیار نہیں ہے، ملک سے باہر جمع کیا ہوا پیسہ کوئی پاکستان میں لانے کو تیار نہیں ہے، دوسروں کو پاکستانیت کا درس دینے والے پاکستانی اشیاء کو استعمال کرنے کو کوئی تیار نہیں ہے، ملک دشمن عناصر اور محبِ وطن میں کوئی فرق کرنے والا نہیں ہے، کوئی سچ بولنے، سننے کو تیار نہیں ہے سب بولنے اور بس بولنے کہ شوقین ہیں کوئی سننے کو تیار نہیں ہے (قدرت بھی سوچ میں مبتلا ہے کہ اب بغیر کانوں کہ بچے بھیجنا شروع کردے کیونکہ انہوں نے بھی سننا تو ہے ہی نہیں)، اخبار، ریڈیو، ٹیلیویژن اور دیگر خبر رساں وسائل سب اِدھر کی ادھر اور ادھر کی اِدھر کرنے میں مصروف ہیں۔ ہم پاکستانیوں نے تہذیب و تمدن کا جنازہ نکال دیا ہے۔
بغیر کسی تحقیق کہ مساجد میں امام رکھ لیتے ہیں اور بغیر کسی تصدیق کہ بچوں کہ استاد رکھ لیتے ہیں۔ الیکشن ہوتے ہیں تو جذباتی تقریروں کہ طوفانوں میں بہتے ہی چلے جاتے ہیں اور اسی خمار میں بہتے بہتے ووٹ بھی ڈال آتے ہیں پھر جب طوفان تھمتا ہے تو خمار اترتا ہے، پھروہ سب خواب سا لگتا ہے اور تقریریں کرنے والے کہیں بہت دور جاچکے ہوتے ہیں۔ اسائشوں اور آسانیوں کی زندگی میں۔ پھر ہم پاکستانی پانی کیلئے برتن اٹھائے اٹھائے گھومتے رہتے ہیں، بجلی کی مر ہونِ منت گرمیوں سے جان بھی گنوا دیتے ہیں، ایک ایک روٹی کیلئے مارے مارے پھرتے ہیں، سڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں، کب تک بچوں کہ سامنے خالی ہاتھ لوٹیں خودکشی کرلیتے ہیں یا بچوں کی جان لے لیتے ہیں۔ سارے کا سارا قصور ہم پاکستانی عوام کا ہے۔ کوئی بھی کہیں بھی کھڑا ہوکر تقریر کرنا شروع کر دے بس اس کی باتوں کو سمجھے بغیر تالیاں بجانا شروع کردیتے ہیں۔ معلوم نہیں کہاں سے ہمارے مزاج میں یہ چیز آگئی کہ کسی بھی کام کو مکمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے، بس جہاں دل بھر گیا وہیں چھوڑا اور کچھ کرنے بیٹھ گئے۔
Pak Nation
جس طرح گھر، گھروالوں سے ہوتا ہے بلکل پاکستان بھی ایک گھر ہے اور پاکستانی اس کہ مکین ہیں۔ یہاں خطیر رقم خرچ کر کہ سڑکوں پر سڑکیں تعمیر کی جارہی ہیں، میٹرو بس سروس چلائی جا رہی ہے جس کیلئے خصوصی راستے بنائے جا رہے ہیں۔ اہم ترین تاریخی عمارتیں جنہیں تاریخی ورثہ کہ طور پر ابتک سنبھال کر رکھا گیا تھا ان راستوں کی وجہ سے مسمار کیا جارہا ہے، صرف اور صرف ان سڑکوں کو تعمیر کیلئے، اورنج ٹرین کیلئے۔ یہ سلسلہ لاہور سے شروع ہوا، راولپنڈی سے ہوتا ہوا اب کراچی پہنچ چکا ہے ۔ خوشی کی بات ہے کہ ان سڑکوں کی تعمیر کا کام بہت تیزی سے جاری و ساری ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ” کیا پاکستان کی طبعی شکل سدھارنے کی ضرورت زیادہ ہے یا پاکستان میں رہنے بسنے والے، پاکستان پر مرمٹنے والوں کی زندگیاں سدھارنے کی ضرورت زیادہ ہے”۔
انہیں پینے کو پانی نہیں مل رہا، انہیں کھانے کو کھانا نہیں مل رہا، انہیں ہسپتالوں سے علاج نہیں مل رہا، انہیں گیس بجلی نہیں مل رہی، تعلیم کا نظام بد ترین ہوا جا رہا ہے، نکاسی آب کا کوئی انتظام نہیں دیکھ رہا، گلی محلے کچرا خانہ بنے ہوئے ہیں۔ ہر پاکستانی اپنے آپ سے سوال کررہا ہے کہ کسے ووٹ دیتے ہو کون تمھاری سنتا ہے کون تمھارے روتے بچوں کوچپ کرانے یا بہلانے آتا ہے ، سب کو تو بس بولنے کا شوق ہے کون تمھاری سننے آتا ہے۔ ہر پاکستانی شرمندہ شرمندہ سا نظر آتا ہے اور سر جھکائے کھڑا رہتا ہے اور پھر اس وقت وعدہ کرتا ہے کہ اب کی ووٹ کا سہی استعمال کرونگا۔ مگر ایسا نہیں ہوتا ہو ہی نہیں سکتا اسے ووٹ تو اپنی زبان بولنے والوں کو ہی دینا ہوتا ہے یا پھر اپنی برادری والے کو دینا ہوتا ہے یا پھر اپنے ہم مسلک کو دینا ہوتا ہے۔ گزشتہ 70 سالوں سے یہی سب چل رہا ہے۔
Conscience
پاکستانی عوام نے جس دن اپنے ” ضمیر ” کی آواز پر لبیک کہہ دیا اس دن پاکستان میں تبدیلی آجائے گی۔ پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے جہاں سیاسی اور مذہبی رہنما اپنے اپنے “ذاتی” مفادات کی خاطر عوام کو بھینٹ چڑھاتے رہتے ہیں اور خود آسائشوں کہ مزے لوٹتے پھرتے ہیں۔ ہمارے حکمران ایسے ہیں کہ عوام کو دیکھانے کیلئے آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں اور پھرحکومت یا اختیار کی خاطر گلے بھی لگ جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں کرتے ہیں، پھر فرشی سلام کرکہ خوش آمدید بھی کرتے ہیں اور ساتھ بیٹھ کر انواؤ اقسام کہ ایک دوسرے کو کھانے بھی کھلاتے ہیں پھر گلے بھی لگاتے ہیں۔ ہم پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ دیکھو ہماری خاطر انہوں نے اپنی لڑائیاں ختم کردیں سب گلے شکوے دور کردئے درحقیقت اس سارے معاملے کہ پیچھے انکا اور انکے خاندانوں کے مفاد ہوتے ہیں جو کسی پاکستانی سے بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک ہی گھر میں مختلف جماعتوں کہ رہنما رہتے ہیں۔ ایک ہی خاندان مگر مختلف سیاسی و مذہبی مزاج۔ یہ ہمارے ملک کا بہت معزز اور مخصوص طبقہ ہے ۔
اگر یہ واقعی پاکستان اور پاکستانی قوم سے مخلص ہیں تو آج تک ہمارے ملک میں اچھے سرکاری ہسپتال کیوں نہیں بنوائے گئے جہاں کم از کم ایک عام آدمی اپنا علاج معالجہ بغیر بھیک مانگے کروا سکے اور ہمارے ملک کہ حکمرانوں اور امراء کو دنیا کہ مہنگے ترین ہسپتالوں میں علاج کروانے نا جانا پڑے ۔ اگر یہ واقعی پاکستان اور پاکستانی قوم سے مخلص ہیں توکم از کم پینے کے پانی کی فراہمی تو یقینی بنائیں۔ اگر یہ واقعی پاکستان اور پاکستانی قوم سے مخلص ہیں تو کم از کم تعلیم پر ایسی توجہ تو دے دیں جیسی اپنے اور اپنے خاندان کہ رہن سہن پر دیتے ہیں۔ انصاف کہ بغیر معاشرے نہیں پنپتے جہاں منصف بکتا ہو اور سزائیں صرف غریب نادار اور لاچاروں کے حصے میں آتی ہوں، کوئی سننے والا نا ہو۔ جہاں حکمران قانون سے بالا تر ہوں، قانون انکے جرائم کی حفاظت پر معمور ہوجائے، اگر یہ واقعی پاکستان اور پاکستانی قوم سے مخلص ہیں تو انصاف مہیہ کریں اور سب سے پہلے اپنے آپ کو پیش کریں۔ اگر اپنے اپنے کئے پر کوئی ندامت نہیں ہے تو اپنے آپ کو عوام کہ سامنے پیش کردو۔ بس پاکستانیوں کو وہ پاکستان دے دو جس کیلئے قربانی در قربانی یہ عوام یہ پاکستانی دئیے جا رہا ہے۔ دیر نہ کردینا اس قوم کو اسکا صحیح معنوں میں حق ادا کردینا۔
فیص احمد فیض صاحب کہ اس شعر پر اپنے اس مضمون کا اختتام کرونگا کہ :
مِٹ جائے گی مُخلوق تو انصاف کرو گے منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے