اسلام میں اقتدار کا تصور اور پاکستانی سیاست دان

Islam

Islam

تحریر : منظور احمد فریدی
اللہ کریم قادر مطلق خالق ومالک کی کروڑہا بار حمد وثنا اور لاکھوں بار درود سرور عالم محمد مصطفی کریم کی ذات بابرکات پر جس نے بھٹکی ہوئی انسانیت کو لاکھوں خدائوں کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے واپس ایک خدا ایک معبود اور حقیقی رب اللہ کریم کی پہچان عطا فرمائی انسانیت کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر عربی و عجمی کو برابری کا درس دیا اسلام دین فطرت سہل پاکیزہ اور بندوں کو مکمل آزادی کا درس دیتا ہے اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ کریم ہے اور اس نے قرآن میں واضح ارشاد بھی فرمایاہے ،،اللہ ہی ملک کا مالک ہے جسے چاہتا ہے ملک عطا کرتا ہے جس سے چاہتا ہے ملک چھین لیتا ہے جسے چاہتا ہے عزت عطا فرماتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کردیتا ہے اسلام میں اقتدار اگر کسی بندہ کے پاس ہو تو اسے فقط خادم اور اللہ کی طرف سے لگائی جانے والی ذمہ داری سمجھی جائیگی ۔سلف صالحین میں سے سب نے ہمیشہ مخلوق خدا کی بھلائی اور خدمت کا درس دیا۔

مگر کوئی بھی صوفی بزرگ اقتدار کی مسند پر براجمان نہیں ہوا اب اگر اس جملہ سے کسی کو غلط فہمی ہو کہ صوفی کا اقتدار سے کام ہی کیا تو اسکی اپنی کم علمی ہوگی حضرت شیخ ادھم جو کہ سلسلہ چشتیہ کے جد امجد ہیں آپ اپنی سلطنت چھوڑ کر فقر اختیار کیا اور گنج شکر فریدالدین مسعود جیسا بزرگ برصغیر کو دیا اسی طرح خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کو بھی شاہ وقت نے اقتدار کی کرسی پیش کی مگر آپ نے بھی پسند نہ فرمائی۔

تاریخ اسلام کا عظیم سپہ سالار عظیم جرنیل اور ایک عظیم ترین حاکم جس کے نام سے کفر کے در ودیوار کانپ جاتے رہے اور اسلامی ریاست نے جو وسعتیں بھی اختیار کیں انہی کے دور میں کیں حضرت عمر فاروق اپنے اقتدار کے پہلے خطبہ میں فرماتے ہیں کہ ،،جب تک میں اللہ اور اسکے رسولۖ کے فرمودات کے مطابق چلتا رہوں تم پر میری اطاعت فرض ہوگی اور جب میں ایک بال برابر بھی شریعت سے روگردانی کروں تو تمہیں حق ہوگا کہ میری اطاعت چھوڑ دو اور میری حکمرانی میں دریائے نیل کے کنارے اگر بکری کا ایک بچہ بھی بھوک سے مر گیا تو اسکا حساب بھی عمر نے دینا ہے۔

Hazrat Umar Farooq R.A

Hazrat Umar Farooq R.A

آپ سے ملاقات کے لیے جب قیصر روم کا ایلچی آیا تو وہ مدینہ شریف میں بادشاہ کا محل تلاش کرتا رہا اور اور یہ عظیم راہنما اپنی ذاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مسجد کی تعمیر میں ایک مزدور کے طور پر کام کررہا تھا اسی طرح جناب ابوبکر صدیق کو جب خلیفہ بنایاگیا تو مشیران نے آپ کی تنخواہ کا پوچھاتو آپ نے حکم دیا کہ جو اجرت ایک مزدور کی یومیہ ہے وہی میں لونگا کسی نے سوال کیا کہ آپ کا گزارہ ہوجائیگا تو آپ نے فرمایاکہ اگر نہ ہوا تو مزدور کی اجرت بڑھا دونگا اب آئیں وطن عزیز کی سیاسی پارٹیوں کے قائدین کی زندگی پر کون ہے ایسا پوری سیاسی جماعتوں میں سے چھان لو تب بھی ایک بندہ بھی ایسا نہ ملیگا جو مذکورہ معیار پہ پورا اترتا ہو کوئی بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا موقع ضائع کرنے والا نہیں کوئی لوہے کے سکریپ سے شاہ بن گئے تو میٹر کلرک سے وفاقی وز یر ۔اور ہمارے اسمبلی ممبران کا حالیہ بل جو انہوں نے اپنی تنخواہوں اور دیگر مراعات میں اضافہ کے لیے پیش کرکے پاس کیا اپوزیشن نے ہنگامہ آرائی کی اور نہ ہی حکومت نے وہ بل مسترد کیا۔

ایک ممبر قومی اسمبلی نے صاف کہا تھا کہ اس تنخواہ سے اسکی بیوی کے میک اپ کا خرچہ پورا نہیں ہوتا یہ ہے ہمارے سیاست دانوں کی گھرمیں حکومت۔مگر ہم پر حکومت کرنے کے لیے اقتدار کی یہاں قیمت لگتی ہے ہم لوگوں کی مہروں والے ووٹ کب گنتی میں آتے ہیں اور ہم رائے دہندگان ہیں کب ہم وہ ہیں جو تقسیم سے اب تک انہی چند خاندانوں کی رعایا ہیں اور اسوقت تک رہیں گے جب ہم تائب ہوکر اپنے رب کو منا نہیں لیتے ورنہ شطرنج کی بازی جاری رہیگی اور اس پر لگنے والے جواء سے اقتدار بٹتا رہیگا اور ہم پیدائشی مہرے زمانہ کی چال کے کام آتے رہیں گے۔

بادشاہ سلامت اور انکے حواری اپنا دل بہلانے کے لیے کھیلتے کھیلتے لڑ پڑے تو مہرے اٹھاکر پھینک بھی دیے جاتے ہیں پھر کوئی سانحہ گلشن اقبال ہوجاتا ہے تو کہیں سانحہ کراچی اور مہرے سمندر میں پھینک کر کھلاڑی دوبارہ اقتدار سنبھال لیتا ہے جیسے کراچی کا مئیر بن گیا دھرتی ماں کو مردہ باد کہنے سے کیا ہوتا ہے تم کہے جائو غدار کیا ہوگا کیا ہونا اور آج تک کیا ہوا ہے کل کس نے دیکھا ہے سدا رہنے والی ذات صرف اللہ کی ہے سدا بادشاہی سوہنے رب دی سارے جگ دا مولا آپ والسلام۔

Manzoor Faridi

Manzoor Faridi

تحریر : منظور احمد فریدی