واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکہ کے صدر دو سے آٹھ ستمبر کے دوران دیگر عالمی رہنماؤں کے ساتھ چین کے شہر ہنگزو میں ہونے والے گروپ آف 20 ممالک کے اجلاس اور ویت نام میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے۔
صدر براک اوباما کو ستمبر کے پہلے ہفتے میں اپنے ایشیا کے دورے کے دروان کئی طرح کے معاملات کا سامنا کرنا ہوگا ایسے میں جب ایشیا بحرالکاہل کے خطے میں ان کے اسٹریٹجک توازن کو دوبارہ بحال کرنے اور اس خطے کے لیے وہ بطور صدر کیا ورثہ چھوڑ کر جائیں گے اس کے بارے میں حتمی طور پر ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ اوباما کا بطور امریکی صدر یہ ایشیا کا گیارہواں دورہ ہوگا۔
صدر اوباما کی دوسری اور آخری صدارتی مدت ختم ہونے میں پانچ ماہ سے بھی کم عرصہ باقی رہ گیا ہے اور اس دوران وہ آخری بار ایشیا کا دورہ کریں گے۔ بطور صدر وہ اس خطے میں امریکہ کے اثرو رسوخ اور طاقت کو بڑھانے کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔
امریکہ کے صدر دو سے آٹھ ستمبر کے دوران دیگر عالمی رہنماؤں کے ساتھ چین کے شہر ہنگزو میں ہونے والے گروپ آف 20 ممالک کے اجلاس اور ویت نام میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے۔ صدر اوباما کے مطابق امریکہ کی سلامتی کے مستقبل اور خوشحالی کے لیے خارجہ پالیسی کو دوبارہ متوازن کرنا امریکہ کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
وائٹ ہاؤس کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ایشیا کے دورے کے دوران وہ تواتر کے ساتھ تجارتی سمجھوتے ‘ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ’ یعنی ٹی پی پی کی توثیق کرنے کے لیے “ایک مضبوط موقف” پیش کریں گے۔ اس تجارتی معاہدے پر بحرالکاہل خطے کے 12 ممالک نے دستخط کیے ہیں اور یہ اس خطے کی اقتصادی (ترقی) کی بنیاد ہے۔
امریکہ کے قومی سلامتی کے نائب مشیر بین رہوڈز نے کہا کہ “ٹی پی پی امریکہ کی قیادت کا ایک امتحان ہو گا”۔ ان کا موقف ہے کہ اگر امریکہ اس سمجھوتے کی توثیق نہیں کرتا تو “(وہ) اس سارے خطے کو چین جیسے ملکوں کے حوالے کر دے گا جو تجارتی سمجھوتے کے لیے اس طرح کے اعلیٰ معیار مقرر نہیں کرتے ہیں”۔
ایسے میں جب یہ امریکہ کے صدراتی انتخاب کا سال ہے اس دوران امریکی کانگرس اس سمجھوتے کی توثیق کرتی ہے یا نہیں اس بارے میں شک و شبہ کا اظہار کیا جارہا جبکہ صدراتی انتخابی مہم کے دران یہ آوازیں اٹھائی جارہی ہیں کہ روزگار میں کمی کی وجہ تجارت ہے۔
دونوں بڑی جماعتوں کے صدارتی امیدوار ریپبلکن جماعت کی طرف سے نامزد ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزد امیدوار ہلری کلنٹن نے بھی یہی موقف اپنایا ہے۔
صدر اوباما صدراتی انتخابات کے بعد نومبر میں اس سمجھوتے کی توثیق کے لیے ایک آخری کوشش کریں گے۔ تاہم مبصرین کا ماننا ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے اس بات کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں۔
واشنگٹن کے ایک معروف تھینک ٹینک ’کارنیگی انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس‘ سے منسلک ڈگلس پال کا کہنا ہے کہ “اگر اہم ایسا نہیں کرتے تو ایشیا کے لیے توزان برقرار رکھنا بیکار (کوشش) ہے”۔
صدر اوباما کو گروپ آف 20 کے اجلاس کے دوران بھی کئی طرح کے مشکل معاملات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دنیا کی 20 بڑی معیشتوں پر مشتمل ممالک کے رہنما سست عالمی معیشت کو فروغ دینے کے معاملے پر بھی بحث کریں گے اور وہ موسمیاتی تبدیلوں کے خلاف بھی آواز اٹھائیں گے۔
اس موقع پر صدر اوباما کی اہم ملاقاتوں کے دوران چینی صدر شی جنپنگ اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ ہونے والی بات چیت اہم ہو گی۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ اس موقع پر روس کے صدر ولادیمر پوتن سے بھی بات چیت کریں۔
امریکہ اور چین کے درمیان ہونی والی بات چیت کا محور چین کی سائبر سرگرمیوں، اقتصادی طور طریقے اور بحیرہ جنوبی چین میں ہونے والے جارحانہ اقدامات کے بارے تحفظات ہوں گے جہاں چین کی طرف سے کئی طرح کا تعمراتی کام عمل میں لایا گیا جو اس متنازع علاقے میں چین کے جنوب مشرقی ایشیائی ہمسایہ ممالک کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ یہ صدر اوباما اور صدر شی کی اس طر ح کی آخری ملاقات ہو گی۔
خیال کیا جارہا ہے کہ اوباما اور اردوان کی ملاقات کے دوران ترکی کی ناکام بغاوت کے بعد ہونے والی سخت کارروائیوں کا معاملہ بھی زیر بحث آئے گا۔ ترکی اس بغاوت کا الزام امریکہ میں مقیم مذہبی رہنما فتح االلہ گولن پر عائد کرتا ہے جبکہ فتح اللہ گولن اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ اوباما اور اردوان کی ملاقات میں داعش کے خلاف لڑائی، شام کا عدم استحکام اور تارکین وطن کا بحران بھی بات چیت کی ایجنڈے میں شامل ہے۔
جبکہ صدر اوباما اور صدر پوتن کے درمیان ہونے والی ممکنہ بات چیت کے دوران متوقع طور پر مشرقی یوکرین میں تنازع اور شام میں ماسکو کے کردار کے بارے میں گفتگو ہو سکتی ہے۔ امریکہ نے روس پر زور دیا ہے کہ وہ بشارلاسد کو عارضی جنگ بندی کے معاہدے کی پابندی پر قائل کرے اور انسانی امداد کی ترسیل کی اجازت دے۔
صدر اوباما لاؤس کا دورے کرنے والے پہلے امریکی صدر ہو ں گے جب وہ آسیان اور مشرقی ایشیا کی پانچ ستمبر کو منعقد ہونے والی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے وینتیانے شہر جائیں گے۔