تحریر : ابن نیاز بھائی صاحب نے انتہائی ذہنی دبائو میں آکر ، میرے منہ میں خاک، پاکستان مردہ باد کے نعرے لگوائے۔ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ وہ پی کر بہک رہے تھے لیکن اس بھائی کی صرف آواز ہی سن کر یہاں کے لوگ بن پیے ہی کیوںبہک رہے تھے۔کیوں ؟ کیا ان کو ان کے بھائی کی آواز ہپناٹائز کر دیتی ہے؟مجھے تو ایسا ہی لگتا ہے۔ شاید یہی بات ان کے آئین بولے تو منشور میں لکھی ہوئی ہو گی۔ جو کہ بقول شخصے عنقریب تبدیل ہونے والا ہے۔ تبدیل ہو یا نہ ہو، ہونا کچھ نہیں۔ کیونکہ بے شک نئی پارٹی بن گئی ہے، لیکن پیر کی پریس کانفرنس یہ کہہ کر منسوخ کردینا کہ اتھارٹی کا متفقہ فیصلہ ہے یا کمیٹی کی رائے کہ ابھی کوئی پریس کانفرنس نہ کی جائے۔اب یہ اتھارٹی کون ہے، اگر فاروق ستار نئی پارٹی کے صدر ہیں۔ ہونا کیا ہے، الطاف حسین کے چھوڑ کر پارٹی ممبرز نئی پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں۔ فائدہ؟ اتھارٹی تو الطاف حسین کے پاس ہی رہے گی۔ فاروق ستار کس دھڑلے سے بولے کہ وہ الطاف حسین صاحب سے، اس کے الفاظ سے لاتعلقی کا اعلان کرتا ہے۔ لیکن کوئی یہ بتائے کہ جب وہ ، میرے منہ میں خاک، پاکستان مردہ باد کے نعرے لگوا رہا تھا تو وہ کیا تھا۔ اور تم لگا رہے تھے تو وہ کیا تھا۔
کھڈے کی مٹی کھڈی میں ہی جاتی ہے۔ بھلے کوئی دوسرا کھڈا ہو۔ اب بھی اسی طرح ہے۔ ایک پارٹی سے نکل کر دوسری نام نہاد پارٹی میں آگئے۔ پہلے ایک گروپ علیحدہ بنا تھا۔ پاک سرزمین پارٹی۔ کمال صاحب چیئرمین بنے اور اپنی سابقہ پارٹی میں سے بندے اکٹھے کر رہے ہیں۔پاکستان کے لیے تو کوئی نہیں کر رہا ہے۔ سب اپنے مفاد میں ہیں۔ کیونکہ ان کو علم ہو گیا ہے بلکہ شہہ مل گئی ہے کہ صرف اور صرف الطاف حسین کو نوے فیصد کی توقع کے مطابق سائیڈ لائن کر دیا جائیگا۔تو ان کے خیال میں اس طرح متحدہ تو نہیں چل سکے گی۔ اس کا علاج یہ کیا گیا کہ پہلے ایک پارٹی بنائی گئی۔ آدھے مسٹنڈے اس پارٹی میں گھس گئے اور آدھے جو صوفی ستار نے بنائی اس میں چلے گئے۔ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔
پارٹی تو بعد میں بنی، تو اپنے قائد کے بیان کو گول مول کرکے بیان کرتے رہے۔ دوسری نقلی مولانانقلی ڈاکٹر عامر لیاقت بھی اسی کی بولی بولتا رہا۔ لیکن جب دیکھا کہ بات سنبھل نہیں رہی ہے ، دال نہیں گل رہی ہے تو پہلے نے پارٹی بدل لی اور خود کی پارٹی بنا لی اور دوسرے نے کہہ دیا کہ کب تک وہ الطاف حسین کا دفاع کرتا رہے گا۔ کوئی ان سے پوچھے کہ اب بھی دفاع کرتا رہے، جب پہلے وطن سے اتنی غداری کر چکے ہو تو مزید سے کیا فرق پڑتا ہے۔
Amir Liaquat
مولانا ڈاکٹر عامر لیاقت نے تو پارٹی سے ہی لاتعلقی کا اعلان کر دیا ہے۔کہتا ہے کب تک صفائی دے گا۔ مولانا منافق کو کیا فرق پڑتا ہے۔ پہلے پارٹی کی صفائی دیتا تھا ، ساتھ میں ایمان بھی صاف کرتا تھا۔ اب صرف ایمان ہی صاف کرے گا۔ لیکن میرا نہیں خیال کہ ایسا ہو گا۔ کیونکہ پارٹی کا زور ہوتا ہے۔ جب پارٹی ہی ختم ہو جائے، یا پارٹی سے نکل جائے یا نکال دیا جائے تو پھر زور ختم ہو جاتا ہے۔ اسلیے شاید اب میڈیا میںبھی اس کی وہ قدر و قیمت نہ رہے گی جس کی وہ تمنا رکھتا تھا۔ کراچی کی لوکل پارٹی سٹریٹ کرائمز کے حوالے سے بہت بدنام تھی اب جو چندبڑے مجرم جیسے عزیر وغیرہ پکڑے گئے ہیں ، ہر ایک ایک ہی نام لے رہا ہے کہ الطاف حسین کے کہنے پر یہ کام کرتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ امجد صابری قوال کا قاتل بھی یہی کہہ رہا ہے کہ اس نے لندن سے آنے والے حکم پر عمل کیا تھا۔ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔ پھر سونے پہ سہاگہ، حکومت جانتے بوجھتے کہ میئر کراچی کے نام پر سو قتل کا الزام ہے۔ ثابت ہوئے بھی ہوں گے، لیکن پیسہ اور طاقت دونوں جب بولتے ہیں تو خوب بولتے ہیں۔ اور ساتھ میں مفا د بھی۔تو کچھ ایسا ہی ہے۔
اب میئر صاحب کے بقول وہ جیل کے اندر سے کراچی کا انتظام چلائیں گے۔ کیا پاکستان میں واقعی کوئی قانون نہیں ہے۔ ایسے شخص کو تو الیکشن کمیشن والوں کو چاہیے تھا کہ پہلی گیند پر ہی آئوٹ کر دیتے۔ یہ بھی ظلم ہے پاکستان کے عوام کے ساتھ۔ اوپر سے اس کو میئر منتخب کر دیا گیا ہے۔ اب اس نے ہر تھانے سے اپنی فائلیں غائب کرا دینی ہیں۔ پھر کہاں کے مقدمے اور کہاں کی سزا۔ سب ایک تھیلی کی چٹے بٹے ہیں۔ وہ نعرے کہ اس کو گلیوں میں گھسیٹیں گے۔ اس کو پھانسی پر لٹکائیں گے۔ اس کا کڑا احتساب کرکے اس کو قرار واقعی سزا دیں گے۔ کہاں گئے یہ کھوکھلے نعرے۔ بس نعروں پر ہی پاکستان کی سیاست چل رہی ہے۔ اور اس وطن کی سادہ قوم ان نعروں کے پیچھے پاگل ہوئی پھرتی ہے۔
ایک طرف دھرنا خان ١٤، اگست کے دن بھی سیاہ پٹیاں باندھے پھرتا ہے، نہ کوئی یومِ آزادی کی تقریب منعقد کرواتا ہے اور نہ ہی پاکستان کی ترقی و ترویج کی بات کرتا ہے۔ جو بات بھی کرتا ہے اس سے یو ٹرن لے کر بات بدل لیتا ہے۔ کہتا تھا کہ موٹر وے سے قومیں ترقی نہیں کرتیں (میں بھی حق میں نہیںہوں لیکن یہ الگ بات ہے ) اور اب سوات کہتا ہے کہ یہ موٹر وے جو کے پی کے مختلف شہروں کو آپس میں ملائے گی، سوات کی اور ان شہروں کی تقدیر بدل دے گی۔ کیا صرف شہروں کو آپس میں ملانے سے ان کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ نہ ان کو کوئی صاف پانی کی،نہ صحت و صفائی کی سہولت ۔نہ ہسپتالوں میں ڈاکٹر موجود، نہ دوائی کی سہولت۔ تو کیا سڑکوں سے تقدیر بدلتی ہے؟ ہاں بدلتی ہے لیکن ان کی جو سڑکیں تعمیر کرنے میں حصہ ڈالتے ہیں۔
MQM
خیر بات کہاں کی کہاں سے نکل گئی۔ بات ہو رہی تھی پارٹی بدلنے کی،نئی پارٹی بنانے کی۔ تو اب جو بھی متحدہ پاکستان پارٹی میں شامل ہو گا، وہ یقینا الطاف حسین سے ہی بظاہر ٹوٹ کر آئے گا۔ لیکن مجھے صد فیصد یقین ہے کہ ہو گا کچھ بھی نہیں ۔ بس سانپ نے کینچلی ہی بدلی ہے باقی ہے تو سانپ ہی۔ کیا سانپ کو مارنا قانون کے خلاف ہے؟ وہ بھی وہ سانپ جو سر سے دُم تک زہر یلا ہے۔ اتنا زہریلا کہ صرف پھونک بھی مارتا ہے تو جہاں تک اسکی ہوا جاتی ہے، ہر چیز جل جاتی ہے۔میڈیا بھرا پڑا ہے،اخبارات بھرے پڑے ہیں۔ اور کیا ثبوت چاہییں ان سانپوں کے ہوا سے اور کاٹنے کی وجہ سے پاکستان کو نقصان کے۔ کیا اب بھی کوئی ایکشن نہیں لیا جائے گا۔ آئین پاکستان کے تحت ایک فرد کو تقریر کی تو آزادی ہے۔ لیکن اس بات کی آزادی ہر گز نہیں کہ وہ اسلام اور پاکستان کے خلاف جو چاہے بکواس کرتا رہے۔
آئین کے آرٹیکل ١٩ کے مطابق: ”اسلام کی عظمت یا پاکستان یا اس کے کسی حصہ کی سالمیت، سلامتی یا دفاع، غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات، امن عامہ، تہذیب یا اخلاق کے مفاد کے پیش نظر یا توہین عدالت، کسی جرم (کے ارتکاب)یا اس کی ترغیب سے متعلق قانون کے ذریعے عائد کردہ مناسب پابندیوں کے تابع ہر شہری کو تقریر اور اور اظہار خیال کی آزادی کا حق ہو گا، اور پریس کی آزادی ہو گی۔” متحدہ نے ایک بار نہیں، کئی بار آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ تو کیا اس کیلئے صرف اتنی ہی سزا ہے کہ اس کے دفاتر گرا دیے جائیں۔وہ شخص لندن سے اٹھ کر امریکہ جاتا ہے اور وہاں للکار للکار کر پاکستان کے مخالف ممال کو مخاطب کرتا ہے ۔ کہتا ہے کہ پاکستان بنانے کی غلطی ہو گئی، آئو اس کو درست کرو۔
اسرائیل سے ، امریکہ سے ، بھارت، ایران سے مدد مانگتا ہے ۔ لعنت نہیں ہونی چاہیے ایسے شخص پر۔ اوپر سے کمال یہ کہ لندن کہتا ہے کہ ہم اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے سکتے۔ کیوں لیں۔ اس نے پاکستان کے خلاف بات کی ہے، لندن یا انگلینڈ کے خلاف نہیں۔ خدارا، ہمیں اس لعنت سے اور اس طرح کی دیگر لعنت سے نجات دلائیں ۔ حکومت وقت سے ہاتھ باندھ کر یعنی دست بستہ گزارش ہے کہ ان سانپوں کو دودھ پلانے کی بجائے ان کے پھن کاٹے جائیں تاکہ اسلام کے خلاف اور پیارے وطن کے خلاف پھر کوئی بھی اپنی ناپاک زبان سے بکواس نہ کر سکے۔۔۔۔