تحریر: روشن خٹک پچھلے سات آٹھ سالوں سے مگر خصوصا پچھلے دو تین مہینوں سے جس بات کا شور سب سے زیادہ کانوں میں گونج رہا ہے، وہ ہے ”کرپشن، کرپشن ” عجیب بات یہ ہے کہ جتنا کرپشن، کرپشن کا شور بڑھتا جا رہا ہے اتنا کرپشن میں اضافہ بڑھتا چلا جا رہا ہے، اگر پہلے بارہ ارب روپے روزانہ وطنِ عزیز میں کرپشن ہو رہی تھی تو اس وقت پندرہ ارب روپے روزانہ کی کرپشن ہو رہی ہے۔
بِلا شک و شبہ کرپشن ایک ایسی دیمک ہے جو ملک اور معاشرے کے جڑوں کو کھا جاتی ہے۔کرپشن ایک ایسا مرض ہے جو چھوت کی طرح پھیلتا ہے اور معاشرے کو کھا جاتا ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ اس موذی مرض نے ہماری سماجی،سیاسی اور روھانی زندگی کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔کرپشن آکاس بیل کی طرح سے ہے یعنی زرد بیل جو درختوں کو جکڑ کر ان کی زندگی چوس لیتی ہے۔یہ ایک ایسی لعنت ہے کہ اگر ایک بار یہ کسی معاشرے پر آ گرے تو ایک شاخ سے اگلی شاخ اور اگلی شاخ کو جکڑتی چلی جاتی ہے۔حتیٰ کہ زرد ویرانی کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔
آج بد قسمتی سے پاکستانی معاشرہ اسے بیماری میں مبتلا ہے اور پاکستانی عوام دہرے، تہرے عذاب سے گزر رہے ہیں۔ایک تو ان کے اپنے حکمران ہی ان کا خون نچوڑتے ہیں،دوسرا ان کے ٹیکس کے مد میں دی گئی رقم کو ایسے لو ٹتے ہیں جیسے ان کو اس لوٹ مار کا بڑا ثواب ملے گا، تیسرا جو قرضہ بیرونِ ممالک سے حاصل کیا جاتا ہے اسے بھی اپنا مال سمجھ کر کرپشن کے ذریعے اپنے اکاوئنٹس میں جمع کر کے بیرونِ ملک منتقل کر دیتے ہیں۔ایک پانامہ لیکس ہی نہیں ، جس کی وجہ سے حکمرانوں کی چہروں کی ہوائیاں اڑتی نظر آتی ہیں بلکہ یہاں تو کئی دوسرے لیکس کی بھر مار لگی ہوئی ہے۔
Nawaz Sharif Family-Panama Leaks
بقولِ میر تقی میر ” ” پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے……..جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے۔” اس وقت حکمران جماعت پر خصوصا وزیراعظم محمد نواز شریف کے خاندان پر سب سے زیادہ الزامات لگائے جا رہے ہیں مگر وہ اصل جواب دینے کی بجائے حلال دولت کی بات کرتے ہیں مگر دولت کے یہ انبار کہاں سے آئے ؟ وہ اس کا ریکارڈ پیش کر نے سے قا صر ہیں۔اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ملک میں ایک سیاسی سرکس لگا ہوا ہے،ہر طرف کرپشن،کرپشن کی مالا جپی جا رہی ہے جن کے نام کرپشن میں سرِ فہرست ہیں وہ معصو میٹ کا ناٹک کھیل رہے ہیں اور جن کی کرپشن کی کہانیاں ابھی درپردہ ہیں ،وہ دوسروں کی کرپشن پر اپنی سیاست چمکا رہے ہیں ،سیاسی پنڈت مختلف قسم کے تجزئیے پش کر رہے ہیں،ایک نہ ختم ہو نے والی خرافات کا سلسلہ ہے، لیکن اس کے پہلو میں کرپشن ہے کہ کم یا ختم ہونے کے بجا ئے بڑھ رہا ہے۔
میڈیا پر بڑی بڑی ڈینگیں تو سب خوب ما ر رہے ہیں مگر کوئی بھی کسی تبدیلی کے عمل کا واضح پروگرام نہیں دے رہا ہے۔ نیب اور ایف آئی اے دونوں وہ ادارے ہیں جو کہ کرپشن کے خاتمے میں ہراول دستے کا کردار بخوبی ادا کر سکتے ہیں۔لیکن افسوس صد افسوس کہ یہ ادارے کرپشن کے خاتمے کے بجائے اس میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔بھلا یہ بھی کو ئی بات ہو ئی کہ لوٹی ہو ئی رقم میں سے دس بیس فی صد رقم واپس لے کر اچھے چال چلن کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دو ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ نیب کو ایک با اختیار اور موثر ادارہ بنا یا جائے جو ہر قسم کے دباوء سے آزاد ہو، بار گینینگ کا خاتمہ کرے، اگر کسی بڑی مچھلی پر ہاتھ ڈالا جائے تو شور شرابہ نہیں ہو نا چا ئیے کیونکہ اسی پالیسی کی وجہ سے ماضی میں کئی بار کرپشن کے خاتمے کے لئے چلائی جانے والی مہم متا ثر ہو تی رہی ہے۔
Corruption in Pakistan
یہ اس ملک کا بڑا المیہ ہے کہ جب بھی کسی با اثر شخص پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو کئی طرح کے شوشے سر اٹھا لیتے ہیں جس کی وجہ سے مجبورا وہ مہم روک دی جاتی ہے یا ملتوی کر دی جاتی ہے۔ آج کے حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ اگر ہم نے ترقی کرنی ہے، اگر ہم نے دنیا سے بھیک نہیں مانگنی،بلکہ اپنے وسائل میں رہ کر کامیاب ہو نا ہے تو سب سے پہلے کرپشن کے خاتمے کے لئے اقدامات کر نے ہوں گے۔
ہمیں سوچنا ہو گا کہ جہاں ایک طرف غربت،بے روزگاری، بھوک، مہنگائی، بیماری اور محرومی پاکستان کے انیس کروڑ آبادی کو متا ثر کر رہی ہے وہیں ایک محدود اقلیت کے دولت کے انبار کیسے وجود میں آئے۔بِلا شک و شبہ وطنِ عزیز میں قائم مو جودہ نظام ہر گزرتے دن کے ساتھ دولت کے غیر منصفانہ تقسیم کو مزید غیر منصفانہ کرتا جارہا ہے۔یہ پاکستانیوں کی زندگی کو مزید تاریک کر رہا ہے، جب تکیہ نظام رہے گا ، اس کے تضادات یوںہی پھٹتے اور غلاضت پھیلاتے رہیں گے، کرپشن ہوتا رہے گا،اس کا حل اس نظام کو اکھاڑ کر کرپشن کے ذریعے لوٹی ہو ئی دولت کو ضبط کر کے پاکستانی عوام کے لئے استعمال کرنا ہو گا اور ایک ایسا قانون لانا پڑے گا، جو کرپشن کرنے والوں سے بار گینینگ نہیں ،بلکہ سیدھا تختہ دار تک پہنچانے کا ذریعہ بن سکے۔۔۔۔۔۔۔۔……….