تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری قادیانی فتنہ ہندوستان میں انگریزوں کے اقتدار کے دوران پروان چڑھامرزا غلام احمد نے سلطنت انگلشیہ کی بقا و سلامتی کے لیے بیسیوں کتابیں لکھیں اور بدیسی حکمرانوں کے اقتدار کے خلاف ہی نہیں بلکہ دین اسلام میں بھی جہاد کو حرام قرار دے ڈالا چونکہ اسلام کی بیخ کنی مرتد کا پلید مشن تھا اسلئے اس نے خود ایسے دعوے کیے جوکہ اسلامی عقائد کی بنیادوں کے صریحاً خلاف تھے۔صرف خدائے عزو جل کے بارے میں ہی پانچ دعوے کرڈالے کہ نعوذ بااللہ’میں خدا کا بیٹا ہوں’ میں خدا کی بیوی ہوں’میں خدا کی بیٹی ہوں’ میں خدا کا باپ ہوں اور یہ کہ میں خود خدا ہوں اور میں نے آسمان و زمین تخلیق کیے ۔نقل کفر کفر نہ باشد آقائے نامدار محمد ۖ،حضرت ابراہیم ،حضرت موسیٰ ،حضرت عیسیٰ ،حضرت علی المرتضیٰ شیرخدا،حضرت امام حسین عالی مقام کے خلاف مغلظات لکھیں جو کہ ناقابل بیان ہیں۔مسلمانوں کی مسلسل توہین جاری رکھی یہاں تک لکھ ڈالا کہ”کل مسلمانوں نے مجھے قبول کرلیا ہے اور میری دعوت کی تصدیق کردی ہے مگر کنجریوںاور بد کاروں کی اولاد نے مجھے نہیں مانا”اُس وقت ان کی آبیاری انگریزوں نے کی اور آجکل اسرائیل و دیگر اسلام دشمن سامراجی قوتیں کررہی ہیں۔علامہ اقبال نے فرمایا ” مرزائیت یہودیت کا چربہ ہے” اور یہ کہ قادیانی اسلام اور پاکستان کے غدار ہیں۔شورش کاشمیری نے کہا کہ”ربوہ(حال چناب نگر) پاکستان میں اسرائیل ہے۔مسلمانوں کی پچھلی پوری صدی ان کے خلاف جدوجہد میں گزری۔
1953 کی تحریک ختم نبوت میں 10000 سے زائد مسلمان شہید کرڈالے گئے۔ مولانا مودودی صرف ایک کتابچہ”قادیانی مسئلہ” لکھنے پرپھانسی کی سزا کے مستحق قرار پائے ۔مولانا عبدالستار نیازی کو بھی اسی جدوجہد پر پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ بعد ازاں عالم اسلام کے راہنمائوں کے احتجاج و دبائوپر پھانسی کی سزائیں عمر قید میں تبدیل ہو کر بعد میں ختم ہو گئیں۔جب بھی قادیانیت کے خلاف کوئی آواز اٹھتی حکمران اسے فرقہ وارانہ شاخسانہ قراردے کر کچل ڈالتے در اصل پڑھے لکھے طبقہ تک اس واضح کفر کے بارے میںلٹریچر نہیں پہنچ پایا تھا۔کرناخدا کا کیاہوا؟کہ جنوری1971کی ایک سردی سے ٹھٹرتی ہوئی شب نشتر کالج ملتان کے ابن سینا ہوسٹل میں سالانہ فنکشن پر زوردار دھماکے ایسے سنائی دیے جیسے کسی نے بم چلا دیے ہوں۔دراصل قادیانی طلباء نے ہوسٹل سیکریٹری کا انتخاب ہارنے پر فنکشن کو سبوتاژ کرنے کے لیے ایسے کیا تھا مسلمان طلبا ء نے اشتعال میں آکر رات گئے ان سبھی بائیس قادیانی طلباء کی درگت بناڈالی مارشل لائی دور تھا راقم سمیت ایک درجن سے زائد طلباء کو گرفتار کرکے فوجی عدالتوں سے سزا سنا کرپابند سلاسل کرڈالا گیا۔
Mirza Ghulam Ahmad Qadiani
جب جیل سے رہا ہوئے تو قادیانی طلباء کے صدر مرزا مبارک نے کہا کہ ہمیں پیٹنا کونسی بہادری تھی؟ آپ مسلمانوں کی تعداد یہاں زیادہ اور ہم صرف بائیس ہاں اگر ہمارا ہیڈ کوارٹر ربوہ ہوتا تو ہم پوچھ لیتے نیا چیلنج سامنے آچکا تھا ۔راقم نے چھ ماہ کی دن رات ورق گردانی کرکے ان کے مخصوص پلید لٹریچر کو کھنگال کر ان کی بیان کردہ مغلظات ،خرافات اور بکواسات پر مبنی ایک پمفلٹ” آئینہ مرزائیت” تیار کیا جسے مسلسل نشتر کالج ہی میں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ہر کالج یونیورسٹی اور انتظامی افسران تک پہنچایا ۔تقریباً سبھی دینی رسائل ہفت روزوں اور بیشتر اخبارات نے اس پمفلٹ کو نقل کیا۔جس سے طلباء سمیت پڑھے لکھے طبقہ کو مرزائی کریہہ عقائد کا پتہ چلا۔ادھر کالجوں یونیورسٹیوں کے انتخابات میں 71تا 74سالوں میں 91فیصد سے زائد منتخب طلباء انجمنوں پرحکومت مخالف طلباء تنظیم آئی ۔جے ۔ٹی قابض ہو چکی تھی۔ہر انتخاب کے دوران اور اس کی تکمیل پر مرزائیت مردہ باد ،اور ختم نبوت زندہ باد کے نعرے گو نجتے تھے۔22مئی 1974کو نشتر کالج ملتان کے طلباء اپنے سالانہ تفریحی ٹور پر جارہے تھے جب چناب ٹرین ربوہ اسٹیشن پر رکی تو مرزائیوں نے اپنی سابقہ روایت کے مطابق اپنی دل آزار تحریروں کے کتابچے تقسیم کرنا شروع کردیے۔نشتر کالج کے طلباء نے اس کا جواب” آئینہ مرزائیت” اور اس کے مندرجات دکھا کر کیا وہیں شدید ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی ٹرین ڈرائیور نے جلد اسے چلادیا توصورتحال گھمبیر ہونے سے بچ گئی مگر مرزائیوں نے اس رنجش کو دلوں میں باقی رکھا جب نشتر کے طلباء 29 مئی کو ٹور سے واپس آرہے تھے تو ربوہ پہنچتے ہی پورے ملک سے طلب کیے گئے مرتدین مسلح مرزائی نوجوانوں نے طلباء کی بوگی کو گھیر لیا اسے نذر آتش کرنے کی کو شش ناکام ہونے پرنہتے طلباء پر پل پڑے اور کل 172 میں سے نوے طلباء شد ید زخمی ہوئے کئی بے ہوش ہوگئے اگلے بڑے اسٹیشن فیصل آباد میںنشتر کے طلباء پر مرزائیوں کے حملے کی اطلاع پہنچ چکی تھی۔آناًفاناً پورا شہر اسٹیشن پر پہنچنا شروع ہو گیا تھا۔
زخمی طلباء کو ایمبو لینسوں میں ڈال کر میڈیکل کالج ہسپتال علاج کے لیے لے جایا گیااسی دوران شہر میں قادیانیوں کے خلاف جلسہ جلوس اور ہنگامے شروع ہو چکے تھے چھ گھنٹے کے بعد ٹرین یہاں سے چلی اور ہر بڑے شہر کے اسٹیشن پر عوام کا جم غفیر ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگاتا جمع ہو جاتا طلباء خطاب کرتے چلے گئے ملتان میں گاڑی پہنچی تو شہر بھر کی تمام سیاسی مذہبی تحریکوں ،تنظیموں کے کارکنوں کا جم غفیر جمع ہو چکا تھا وہیں سے جلسہ جلوس شروع ہو گئے ۔جلوس کے نشتر کالج پہنچنے سے قبل ہی تمام قادیانی طلبا ء کے کمروں کو آگ لگائی جاچکی تھی راقم الحروف نے پریس کانفرنس کے ذریعے ملک بھر کے اخبارات کو اس وقوعہ کی اطلاع دی تو اگلے روز بیرونی میڈیا سمیت تمام پاکستانی اخبارات کی ہیڈ لائین یہی تھی کہ”قادیانیوں کانشتر کالج کے طلباء پر قاتلانہ حملہ سینکڑوں شدید زخمی”ناک کان زبانیں کاٹ ڈالی گئیں نشتر کالج فوراً غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیا گیا ہوسٹلز خالی کرالیے گئے۔اسطرح نشتر کالج کے طلباء ہر شہر میں پہنچ گئے اور ملک میں شدید ہنگامے شروع ہو گئے فوراً علماء و اکابرین ملت نے اکٹھے ہو کر مجلس عمل ختم بنوت کی بنیاد ڈالی جس کے کنوینر کراچی کے مولانا یوسف بنوری اور جنرل سیکریٹری مولانا محمود احمد رضوی مقرر ہوئے۔قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے و دیگر مطالبات کو پورا کروانے کے لیے 14جون 1974کو ملک گیر ہڑتال کی اپیل کی گئی جو مکمل کامیاب رہی ملک بھر کی سڑکوں پر ہو کا عالم تھاٹریفک تک بھی بند رہی حکومت پنجاب نے اس ناگہانی واقعہ کے لیے جسٹس صمدانی کی سرابراہی میں تحقیقاتی کمیشن قائم کردیا۔
Qadiani literature
انہوں نے بھی مفصل رپورٹ مرتب کی اور تمام قادیا نی کتب منگوا کر آئینہ مرزائیت میں درج کردہ دل آزار تحریروں کا تقابل کیااور ان تحریروں کے قادیانی لٹریچر میں موجود ہونے کی تصدیق کردی ۔قومی اسمبلی میں پرائیویٹ بل مولانا الشاہ احمد نورانی نے دیگر بائیس ممبران اسمبلی کے دستخطوں سے پیش کیا۔قائد حزب اختلاف مولانا مفتی محمود اور اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے کئی روز تک قادیانیوں کے صدر مرز اناصر احمد کو اسمبلی میں بلوا کر جرح کی۔راقم الحروف نے مرحوم بھٹو کو آئینہ مرزائیت پیش کیا تو وہ بہت سٹپٹائے اسمبلی کے کاریڈور تک میں اس پمفلٹ کو تقسیم کروایااور خود ان مرتدین کو غیر مسلم قراردے ڈالنے کے فیصلے پر پہنچ گئے در یں اثناء جید علماء محضر نامہ تیار کرچکے تھے جسے قومی اسمبلی میں پڑھا گیا یوں سات ستمبر1974کو آئینی ترمیم منظور کر لی گئی جس کی رو سے ہمہ قسم قادیانی گروہ غیر مسلم اقلیت قرار پاگئے۔1984میں امتناع قادیانیت کا صدارتی آرڈیننس جاری ہوا۔
آئینی ترمیم اور آرڈیننس پر نہ تو عمل درآمد ہورہا ہے اور نہ ہی قادیانی زندیقین و مرتدین اس پر عمل در آمد قبول کرتے ہیں مرتد کی شرعی سزا نافذ کیوں نہیں کی گئی۔اسلامیان پاکستان اور پورے عالم اسلا م کے لیے یہ سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔معلوم یہی ہوتا ہے کہ اسرائیل امریکی برطانوی سامراج ایسے فیصلے کے عمل در آمد کے آڑے آئے ہوئے ہیں وگرنہ خدا کی پاک سرزمین پرکسی قادیانی کا وجود کس طرح باقی رہ سکتا تھا ؟جن کاعقیدہ یہ ہوکہ نعوذ بااللہ”کوئی بھی شخص ترقی کرسکتا ہے حتیٰ کہ محمدۖ سے بھی بڑھ سکتا ہے اور میرا نام نبی اور احمد رکھا گیا ” محمد عربی کے غلاموں کے عالم اسلام میں ایسی خرافات بکواسات بیان کرنے والے کیسے دندناتے پھرسکتے ہیںاہم پوسٹوں سے انھیں نکال باہر کرنا ہی ملکی سا لمیت کااولین تقاضا ہے۔