تحریر : سید مبارک علی شمسی بہاول پور دریائے ستلج کے کنارے پر واقع ہے جسے نواب آف بہاول پور جناب بہاول خان عباسی اول نے 1727 ء میں آباد کیا۔ طویل عرصے تک یہ ایک علیحدہ اور خود مختار ریاست تھی۔ سابق ریاست بہاول پور جس میں انگریزوں کا عمل دخل 1833 ء میں شروع ہو گیا تھا اور ایک معاہدے کے تحت نواب آف بہاول پور بہاول خان ثالث کی درخواست پر انگریزوں نے اپنے قائدے اور قانون اس خطے میں لاگو کر دیئے تھے اور نواب آف بہاول پور جناب بہاول خان ثالث انگریزی سرکار کے مطیع ہو گئے تھے۔ ریاست بہاول پور کے نظم و نسق کی دوڑ 1979ء تک انگریزوں کے ہاتھ میں رہی اور یہی وہ عہد ہے جس میں قومی زبان اردو کو بہاول پور میں وسعت ملی اور سرکاری سطح پر اسکا اثرو نفوذ عروج پر تھا۔
بعد ہ نواب آف بہاول پور جناب نواب صادق محمد خاں رابع کو 28 نومبر 1979ء کو جانشینی (حکمرانی) کے اختیارات نصیب ہوئے اس موقع پر لیفٹیننٹ گورنر پنجاب آنریبل سررابریٹ ایجرٹن نے جو تقریر کی تھی وہ قومی زبان اُردو میں تھی۔ کیونکہ اسے اچھی طرح سے بات کاادراک تھا کہ اب برصغیر میں اردو ہی ترقی یافتہ زبان ثابت ہو گی۔ رابریٹ ایجرٹن کی یہ تقریر اس لحاظ سے بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے اور اب تک رکھتی ہے۔اس سے پہلے کسی انگریز حکمران نے اردو میں تقریر نہیں کی تھی۔ اسکی وجوہات کچھ بھی ہوں مگر یہ بات طے ہے کہ اسکا اہتمام ریاست بہاول پور کی عوام اور نواب آف بہاو ل پور کی اُردو سے غیر معمولی دلچسپی کیوجہ سے کیا گیا تھا۔
انگریز حکمران رابریٹ ایجرٹن کی نواب آف بھاول پور کی جا نشینی کے موقع پر کی گئی اُردو تقر یر انگر یزی مافیہ کے لیے لمحہ فکر یہ ہے۔ میں نے اس دستاویزی تقر یری کو اُردو ا کیڈمی بھاول پور کے معتمد مسعود حسن شہاب دہلو ی کی کتاب ” بھاو ل پو ر میں اُردو ” سے حر ف با حر ف نقل کر کے تحر یر کیا ہے ملاحظہ فرمائیں۔
” مجھ کو بہاول پور آنے میں کبھی اس قدر مسرت نہیں ہوئی جیسا کہ اس موقع سعید پر ہوئی ہے یہ وہ موقع ہے کہ منجانب عالی جناب فلک رکاب حضرت علیا ملکہ معظمہ قیصرہ ہندو جناب مستطاب معلی القاب نواب نائب سلطنت مجھ پر اس صوبہ میں نہایت معزز کام عاید ہوا ہے کہ عالی جناب نواب صادق محمد خان بہاول کو ان کے بزرگوں کی مسند پر بٹھائوں اور ریاست کے کامل اختیار ان کو تقویض کروں۔ تیرہ برس کا عرصہ ہوا کہ بہاول پور کے کل عمائد اور نواب صاحب صغیر سن کے مشیروں اور وزیروں نے اوران کے خاندان کے اراکین کی علی اور متواتر درخواست پر گورنمنٹ برطانیہ نے قبول فرمایا تھا کہ ریاست بہاولپور کا انتظام ایک صاحب ریذیڈنٹ کے توسط سے جو پنجاب گورنمنٹ کے متعلق کیا جائے اس وقت یعنی ١٨٦٦ ء میں ریاست برسوں سے بحالت ابتری وفتور مبتلا تھی نواب صاحب کے والد کے عہد کی تاریخی یعنی ١٨٥٩ ء سے ١٨٦٦ ء تک کے واقعات ان متواتر عذروں کا ایک طویل اور درد انگیز افسانہ ہے جن کے سبب ملک ویران ہوا محاصل رائیگاں کیا اور رونق کی صورت ناممکن ہو گئی جس دن سے حضرت علیا جناب فلک رکاب ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کی گورنمنٹ نے بہاول پور کو اپنے سایہ عاطفت میں لیا ریاست میںبرابر امن و امان رہا ہے افسران ممتاز نے جو بہت احتیاط سے منتخب ہوئے تھے ریاست کا ایسے طریق پر انتظام کیا کہ روسا ورعایا کو امنیت حاصل رہی اور ان کی مورثتی جائیداد اور محنت کے مفاد سلامت رہے 1965 ء میں محاصل کی یہ صورت تھی کہ وصل نہیں ہو سکتا تھا۔
Nawab Sadiq Muhammad Khan
سال آندہ میں یعنی جب انتظام قائم ہوا تو آمدنی کی تعداد 14 لاکھ روپے ہو گئی اور اب سالانہ اوسط بیس لاکھ روپے تک پہنچ گئی ہے اور آئندہ زیادہ تر اور جلد ترقی کی امید ہے سڑکیں و پل و عمارات مفید عام تیار ہوئی ہیں ۔ پرانی نہریں کشادہ کی گئی ہیں اور انکی مرمت ہوئی ہے ، نئی نہریں کھودی گئی ہیں اور اس سبب سے اڑھائی لاکھ ایکڑ یعنی پانچ لاکھ بیگہ اراضی آبی زیادہ ہو گئی ہے گورنمنٹ نے نہیں چاہا کہ محاصل کو بچا کر جمع کرے اور رئیس کے لیے بیکار خزانہ مہیا کردے۔ جو محض فضول خرچی اور عیش ذاتی کے لیئے ترغیب ہے اس نے بہاو ل پور کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہے جیسا کہ ایک دانا اور دوراندیش سرپرست اپنی محفوظ نابالغ کے ملک کا انتظام کرتا ہے یعنی اخراجات ریاست سے جو روپیہ بچا اس کا بڑا حصہ ایسے کاموں میں صرف کیا گیا جن سے آئندہ کو بھاری مفاد حاصل ہوںجو فوائد ریاست کو گورنمنٹ انگلشیہ کے طفیل حاصل ہوئے ہیں ان میں ایک ریل کی وہ سڑک جس کوانڈس دیلی سٹیٹ ریلوے کہتے ہیں کچھ کم نہیں ہے اور یہ ریل نواب صاحب کی مملکت میں ڈیڑھ سومیل تک گزرتی ہے اور اس آہنی سٹرک کی تعمیر کے واسطے جس سے ریاست کی آمدنی زیادہ ہو جائے گی اور پیدوار ملک کم کرایہ اور مفاد سے سمندر کو روانہ ہو سکے گی بہاول پور سے کوئی حصہ اخراجات کا نہیں طلب ہوا۔
پنجاب میں جو صاحبان لیفٹیننٹ گورنر مجھ سے پہلے ہو چکے ہیں ان کی اور میری دلی خواہش یہی رہی ہے کہ بہاول پور کا انتظام اس طرح پر کیا جائے کہ جب یہاں کی عنان حکومت صاحب ریذیڈنٹ کے ہاتھ سے نواب صاحب کے سپرد ہو تو نہ کسی طرح کا خوفناک صدمہ عائد ہو اور نہ انتظام کا سلسلہ ٹوٹے جب گورنمنٹ نے انتظام ریاست اپنے ہاتھ میں لیا تو ریاست میں بڑی درہمی و برہمی تھی اور وہ شے جس کو انتظام کہتے ہیں بالکل مفقود تھی۔ یہان ملک کے اندرونی جدال و قتال کے ایام میں سرکردہ اور لائق رئیسوں کی موت اور جلاوطنی کے باعث اس قدر نقصان عظیم ہوا کہ کئی ایک ایسے اہلکاران سرکار انگریزی کے بلانے کی ضرورت ہوئی جو گونمنٹ ہند کے صیغہ ہائے مال و دیوانی و فوجداری سے واقف ہوں لیکن چند سال گذشتہ سے میری یہ کوشش رہی کہ جہاں تک ہو سکے غیر وطن کے اہلکاروں کو خواہ اہل یورپ ہوں یا دیسی ریاست سے علیحدہ کیا جائے۔
امور ریاست ان ملازمان کے ہاتھ میں چھوڑے جائیں جنکو آئندہ زیر ہدایت نواب صاحب اہتمام کرنا ہو گا جو دیسی ریاستیں رئیس کی نابالغی کے سبب گورنمنٹ کے اہتمام میں آئی ہیں وہ ان دقیق اور پیچیدہ قاعد کو جو ممالک مقبوضہ سرکار انگلشیہ میں پائے جاتے ہیں جاری کرنا بڑی غلطی ہے ہمارے اپنے صوبوں میں حکام اور واضعان قانون کی کوششیں یکساں اس بارے میں مصروف رہنی چاہیں کہ جہاں تک ہو سکے ضابطہ کو سہل کیا جائے یہ نہ ہو کہ بے علم رعایا پر جو بے سمجھے متابعت کی جاتی ہے وہ ایسا بوجھ نہ ہو جائے جس کو سہار نہ سکے یہ بات سچ ہے کہ انگریزی تہذیب کا اعلیٰ درجہ اور ضبط و ربط قوانین ہند پر بہت سے ایسے فرائض عائد کرتے ہیں جن سے گورنمنٹ ہند سکبدوشی حاصل نہیں کر سکتی اور یہ ساری باتیں صوبہ جات سرکاری اور ریاستہائے توابعین کے نظم ونسق میں سرکار انگریزی کو ایسا دقیق و طویل ضابطہ اختیا رکرنے پر مجبور کرتی ہیں کہ اس سے کار براری تکمیل سے ہوتی۔
Nawab Sadiq Muhammad Khan – Nawab of Bahawalpur
کام کے اچھی طرح سرانجام پانے کی نگرانی بھی بوجہ احسن ظہور آئی ہے لیکن گورنمنٹ پنجاب نے اوائل ایام الحاق صوبہ پنجاب سے زیر حکو مت سلسلہ افسران ممتاز یعنی سر ہنری وجان لارنس و سررابرٹ منٹگمری و سر ڈانلڈ منگلوڈ و سرنہری ڈیورنڈ و سرہنری ڈیوس نے ہمیشہ یہ سعی کی ہے کہ گورنمنٹ اور رعایا میں کوئی پردہ حال نہ رہے اور رعایا کے خاص رواج و قونین و رسوم برقرار رہیں دیسی ریاستیں مثل پٹیالہ ، کپور تھلہ یا بہاولپور یا چمبہ یا سکیت جو عارضی طور پر گورنمنٹ کے خاص انتظام میں آئیں انکا انتظام اس طور ہوا ہے کہ سب صیغوں کی نگرانی ریاست کے مورثی اہلکاروں کی تغویض میں بزیرحکم صاحب پولیٹکل ریذیڈنٹ کے رہی ہے اور جہاںتک ممکن ہوا ہے وہاں کے قدیم دستورات میں بہت ہی کم مداخلت روا رکھی گئی ہے ان ریاستوں میں جہاں کے ریئس بااختیار ہیں لیفٹیننٹ گورنر نے نہ کسی قسم کی مداخلت کی اور نہ کسی ریڈنڈنٹ یا پولیٹکل ایجنٹ کے تقرر کی تحریک کی بلکہ پنجاب کے حسن انتظام کی پرزور تاثیر اور عالی مزلت رئیسوں کی ارادت و خلوص نمایاں پر جو حضرات ملکہ معظمہ کی ذات کے ساتھ انکو ہے اعتماد رکھا۔
جو کچھ میں نے کہا ہے یہ بلاوجہ اور بلاخاص معنی کے نہیں ہے ۔ آج کا دن پنجاب کے لیئے بڑا دن ہے اور قابل یادگار ہے ہو نہیں سکتا کہ ہم اسکو ایسا خیال نہ کریں یہ وہ دن ہے کہااس روز رئوسائے ہندوستان کی نسبت گونمنٹ انگلشیہ کی حسن نیت اور خیر سگالی واضح اورصاف اور نمایاں طور پر روشن ہوتی ہے۔ اے نواب صاحب ! آپ سے اور اسی طرح روسائے کشمیر و پٹیالہ و جنید و نابھرکپور تھلہ و فرید کوٹ ودیگر رئیسان سے جو آج اس جلسے میں اصالتاََ یا وکالتاََ موجود ہیں استخراج کرتا ہوں کہ گورنمنٹ انگریزی کے تعلق کے سبب سے آپکو مفاد ہے یا نقصان ۔ آپ جانتے ہیں کہ سارا جہان یہی جانتا ہے کہ آپکا مرتبہ بڑھایا گیا آپکے علاقہ جات وسیع کئے گئے اور آپکی حکومت دوامی اور مستحکم کی گئی۔
نواب صاحب! آپکو یہ نصیحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ اعلیحضرت ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کے ساتھ ارادت رکھیں۔ اے محمد صادق خان بہادر رکن الدولہ، نصرت جنگ، حافظ الملک ،مخلص الدولہ نواب بہاول پور میں اب جناب مستطاب معلی القاب نواب و ائسرائے بہادر کے حکم سے اور اعلیحضرت ملک معظمہ قیصرو ہند کی طرف سے اعلان کرتاہوں کہ آپ ریاست بہا ول پور کے حاکم بااختیارات کا ملہ ہیں۔
Syed Mubarak Ali Shamsi
تحریر : سید مبارک علی شمسی ای میل ……. mubarakshamsi@gmail.com