تحریر : منظور احمد فریدی اللہ کریم جل شانہ کی بے پناہ حمد وثنا جو رحمن و رحیم اور ستار العیوب ہے وہ ذات باری جو ہمیں ہمہ وقت گناہوں میں مگن رہنے کے باوجود بھی اپنی عطائوں اپنی رحمتوں کے اپنے انعامات کے سلسلے بند نہیں کرتا کروڑ ہا بار درود جناب محمد مصطفی کریم کی ذات مقدسہ مطہرہ پر جس نے پتھر مارنے والوں کو بھی بددعا نہ دی اور دشمنوں سے بھی وہ حسن سلوک کیا جس کی آج تک پوری کائنات میں مثال ملی نہ ملیگی اسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے جس کی ابتدا اللہ کی واحدانیت کے اعلان سے بنی نوع انسان کے باپ جناب آدم علیہ السلام کے ذریعہ ہوئی تکمیل جناب محمد رسول اللہ کے آخری خطبہ پر جب اللہ نے خود فرمادیا کہ آج میں نے تمھارا دین مکمل کردیا اپنی نعمتیں تمام کردیں اور اسلام کو اپنا پسندیدہ دین قرار دیا۔
اسلامی سال کی ابتدا محرم الحرام سے اور اختتام ذالحجہ پر ہوتا ہے اللہ کریم حکمتوں والا رب ہے بندے پر کمال مہربانیوں کے ساتھ ساتھ اپنے قرب میں آنے والوں کو یہ سبق دیا ہے کہ ابتدا بھی قربانی سے ہوتی ہے اورانجام بھی قربانی پہ ہوتا ہے ہجری کیلینڈر کے آخری ماہ ذالحجہ میں جناب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے جگر گوشہ جناب اسماعیل علیہالسلام کو قربان کرکے چشم کائنات کو حیران کردیا کہ ایک باپ اپنے ہاتھوں سے ذبح کررہا ہے اور نہ تو اس کے ہاتھ کانپے اور نہ ہی بیٹے نے اپنا آپ بچانے کے لیے ہاتھ پائوں مارے قارئین کرام علماء کرام کی تقاریر میں یہ سنتے چلے آرہے ہیں کہ جناب اسماعیل علیہ السلام کو ہٹا کر جنت سے بھیجا جانے والا مینڈھا ذبح ہوا اور اللہ نے فرمایا کہ ہم نے بدل دیا۔
اس قربانی کو ایک بڑی قربانی کے ساتھ ذبح عظیم کا لفظ فرمایا گیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ایک مینڈھا ایک نبی سے عظیم نہیں بلکہ خدا کا اشارہ کوئی اور ہے اللہ کریم نے اپنی منشاء اور رضا پہ راضی رہنے والوں کی قربانی کو نواسہ ء رسول جناب امام حسین کی قربانی پر مکمل کرمے حسین کے نام کو ایسا دوام بخشا کہ ابد الآباد تک امر کر دیا اور انہیں جنتی نوجوانوں کا سردار بنا کر آخرت میں بھی انکے درجات بلند فرمادیے اسلام جو قربانی سے شروع ہو کر قربانی پہ ہی ختم ہوتا ہے سبق دیتا ہے اپنے پیروکاروں کو آن عزت ناموس حقیقی اس فانی زندگی سے قیمتی ہے اور زندگی کو تو بالآخر ختم ہونا ہی ہے اگر اسے اللہ کے نام پر ناموس رسالت پر دینی غیرت پر قربان کردیا جائے تو پھر یہ امر کر جاتی ہے۔
Pakistan
وطن عزیز پاکستان میں قربانی کے معنی بہت ہی غلط لیے جاتے ہیں ادارے اپنی نااہلی کو قربانی کا نام دے دیتے ہیں ہمارے سیاسی باوے اپنی نورا کشتی کو بھی قربانی کہتے نہیں تھکتے اور یہ قوم انکی قربانیوں کے طفیل آج جو خمیازے بھگت رہی ہے وہ ہر ذی شعور جانتا ہے مثال کے طور پر زرداری صاحب نے لوٹ مار کرپشن کا جو بازار گرم کیے رکھا میاں برادران نے سب دیکھتے ہوئے بھی خاموشی اختیار کیے رکھی اور اسے قربانی کا نام دیا کہ جمہوریت کی گاڑی چلتی رہے اب میاں برادران کی باری ہے تو زرداری صاحب بارہا فرما چکے کہ وہ صرف جمہوریت کی خاطر قربانی دے رہے ہیں ورنہ وہ بزور شمشیر میاں صاحبان کو اقتدار سے نکال باہر پھینکتے اسی طرح جب سانحہ پشاور ہوا تو وہ سیکورٹی اداروں کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ایک ایسا ادارہ جہاں ننھے فرشتے تعلیم حاصل کررہے ہوں کوئی ناعاقبت اندیش آئے اور ادارہ کی دیواریں پھلانگ کر معصوم جانوں کو اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنا ڈالے۔
اس میں ذمہ داروں کو انجام تک پہنچانے کے بجائے ہمارے لیڈر باربار یہی کہتے رہے کہ ،،،معصوم بچوں کی قربانی رائیگاں نہیں جائیگی،،، بھلا عقل کے قانون دانوں سے کوئی یہ تو پوچھے کہ والدین نے صبح صبح اپنے جگر گوشوں کو تیار کرکے کسی محاذ پہ بھیجا تھا کہ وہ قربان ہوگئے؟ہاں جو حقیقت ہے کہ پاکستانی عوام نے تمھارے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے قربانیاں دی ہیں جان کی مال کی اور اپنے جگر گوشوں کی بھی اور سب سے بڑی قربانی سی ہے اس بھولی قوم نے اپنے شعور کی کہ سب دیکھتے ہوئے بھی سب سنتے ہوئے بھی بار بار آزما کر بھی آج بھی سوشل میڈیا پر آپس میں جنگ کررہی ہے کہ آئندہ حکومت بھی میاں صاحبان کی ہوگی یا عمران خان کی عمران پاگل میاں شیر وغیرہ وغیرہ خدا را اپنی کوتاہیوں کو قربانی کا نام دینے کے بجائے اپنی اصلاح کرو۔
اتفاق سے اس بار قربانی عید الاضحی ستمبر میں ہے اور اس خطہ ارضی پر اپنی جان نچھاور کرنے والوں کی قربانی کو یاد کرو انکی روحوں سے پوچھو کہ وہ قربانی دے کر امر ہوئے تو انکے پیش نظر کیا تھا ؟ شیر اک واری فیر اتے اللہ تے تھلے بلا زرداری سب پہ بھاری یا وہ یہ پیغام دے رہے ہیں کہ پھلا پھولا رہے یا رب چمن میری امیدوں کا جگر کا خون دے دیکر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں۔ سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے تیرا ہر اک ذرہ ہم کو اپنی جان سے پیارا تجھی سے ہے یہ شان ہماری تجھی سے نام ہمارا جب تک دنیا باقی ہے یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔والسلام