تحریر : منظور احمد فریدی اللہ کریم سبحانہ کی بارہا حمد وثناء محمد مصطفی کریمۖ کی ذات مقدسہ پر کروڑ ہا بار درود کا نذرانہ پیش کرتے ہیں جن کی رحمت سے اس مالک حقیقی نے ہمیں آج تک ڈھیل دی ہوئی ہے ورنہ اعمال میں ہم نے پچھلی ان تمام امتوں کو پیچھے چھوڑ دیا جنکو گناہوں پر عذاب میں مبتلا کرکے ختم کر دیا گیا۔
وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان جو کلمہ طیبہ کی اساس پر حاصل کیا گیا اس میں جمہوریت کے نفاذ کا وعدہ بھی کیا گیا اور ایسی جمہوریت جو اسلامی احکامات کے متصادم نہیں ہوگی اسلام بنیادی طور پر امارت کا قائل ہے مگر اس میں بھی جمہوریت کا حسن شامل کیا گیا ہے اسلامی ملک کے امیر کے انتخاب کا طریقہ جمہوری ہے کہ عوام جسے چاہیں اپنا امیر مقرر کرلیں بلکہ یہاں تک ہے کہ جب دوچار ساتھی مل کر کہیں سفر کر رہے ہوں تو انہیں بھی حکم ہے کہ وہ ایک ساتھی کو اپنا امیر مقرر کرلیں مگر اس مملکت کے باسیوں کی یہ بد بختی رہی کہ انہیں جمہوریت میسر آئی نہ اسلامی معاشرہ ارباب اقتدار میں روز اول سے ہی وہ طبقہ شامل ہو گیا جسے اسلام سے کوئی سروکار ہی نہ تھا۔
اسلامی قوانین بنے نہ قاضی عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکنے کے لیے جس کے پاس لاٹھی ہے وہی حکمران ٹھہرا علماء حق نے جمہوریت کے حسن کو دیکھ کر مساجد تک اپنے آپ کو محدود کر لیا اور نام نہاد مفتیان کرام بھی ایسی جمہوری حکومت کا حصہ بن گئے جو نہ تو اسلامی رہی نہ جمہوری بس اپنا اپنا حصہ وصول کرنے والے سارے لیڈر اکٹھے ہوکر عوام کے لیڈر بن گئے۔
Election
ہمارے طریقہ انتخاب کا حال بھی نرالا دیکھا ایک پولنگ بوتھ پر کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد پانچ سو ووٹ کاسٹ کرنے والوں کی شرح چالیس فیصد نتیجہ میں حکومتی پارٹی کے امیدوار کو جو ووٹ ملے وہ چھ سو چالیس تھے آگے خود انداز ہ فرمالیں کہ جمہوریت کا یہ حسن کسی اور ملک میں بھی ہے یا ہم ابھی تک اس کھیل میں اپنے آپ کو اس وہم میں رکھے ہوئے ہیں کہ حکومت ہمارے ووٹوں سے بنی اسلام جس جمہوریت کا حکم دیتا ہے وہ امیر المومنین سیدنا عمر فاروق نے نافذ فرمائی غلطی پر بیٹے کو سزا دینا اور عوام میں سے ہر ایک کو جواب دہ ہونا وہ مثالیں ہیں جنہیں پڑھ کر سن کر ہمارے اسلاف اپنا تن من دھن سب قربان کرکے اس ملک میں آئے مگر یہاں تو گنگا ہی الٹی بہہ نکلی اقتدار کو عوامی خدمت کانام دیکر مال کمانے کا ذریعہ سمجھا جانے لگا۔
ایک الیکشن میں ایک کروڑ لگائو اور حکومت میں شامل ہوجائو آئندہ الیکشن کے آنے تک دس دنیا ستر آخرت کا حساب برابر کرلو مگر پوچھے گا کون جمہوریت میں تو ایک بار حضرت عمر فاروق کے پاس مال غنیمت کی چادریں آئیں ایک ایک چادر تمام لوگوں میں تقسیم کردی گئی اب اس چادر سے پورا لباس نہیں بنتا تھا یعنی قمیض بنائو تو تہہبند نہیں اور تہہ بند بنائو تو قمیض نہیں جمعہ کے روز امیر المومنین خطبہ جمعہ کے لیے منبر پر جلوہ افروز ہوئے تو اسی چادر کا پورا لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔
ایک صحابی نے کھڑے ہوکر سوال کردیا کہ ہمیں جو چادریں ملیں ان سے پورا لباس تیار نہیں ہوا آپ کا کیسے بنا تو امیر المومنین نے اپنے بیٹے کو بلاکر حکم دیا کہ لباس تم نے بنوادیا ہے اب وضاحت بھی تم ہی کرو آپ کے بیٹے نے منبر رسول ۖ پر کھڑے ہوکر گواہی دی کہ ایک چادر میری اور ایک ابا حضور کی ملا کر لباس تیار کیا گیا ہے تو سوال کرنے والے نے معذرت کی اور نہ اسی قید میں ڈالا گیا مگر یہ عجب جمہوریت ہے کہ جو بھی مسند اقتدار پر براجمان ہو سب سے پہلے اسے یہ استثنیٰ دیا جاتا ہے کہ جو مرضی کرو عوامی وسائل کو اپنی سلطنت سمجھو عوام کے خون پسینہ کی کمائی سے حاصل شدہ مال کو اپنے باپ دادا کی وراثت سمجھ لو اس موقع سے اتنا فائدہ اٹھا لو کہ تمھاری نسلوں سے بھی ختم نہ ہو کوئی مائی کا لعل پوچھنے والا نہیں ملکی سرمایہ سے اسلام دشمن اغیار کے ممالک کو فائدہ دو یہ قوم اس قابل نہیں کہ اسکے بچوں کو تمھاری فیکٹریوں میں مزدور رکھا جائے۔
Poverty
فیکٹریاں بھی لگائو تو بیرون ممالک اور استثنیٰ ختم ہوجائے تو اس کنگال ملک میں رہنے کے بجائے جاکر اپنا کاروبار سنبھالو کوئی پوچھنے والا نہیں یہی جمہوریت ہے ؟ جس میں غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے لوگوں کے ووٹوں سے اقتدار حاصل کرلو اور پھر انہیں اتنا ذلیل کردو کہ انکے ہاتھ روٹی تلاش کرتے رہیں تمھاری طرف انگلی اٹھانے کی طاقت ہو نہ دماغ کو فرصت اور ہاں جمہوریت کا ایک حق میں دیکھا اور ایک سنا ہے ایوب خان مرحوم ڈکٹیٹر تھا اس کا دور حکومت کیسا رہا میں نہیں جانتا۔
اتنا سنا ہے کہ اسکے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی اسے عوام نے کتا کہا تو وہ مستعفی ہوگیا مگر اب سوشل میڈیا پر جمہوری حکمرانوں نے عوام کو یہ حق ضرور دیا ہوا ہے کہ کتا کہیں یا شیر انہیں مکمل آزادی ہے کیونکہ آخر ایک اسلامی جمہوریہ ریاست ہے جو اپنی رعایاکو کم از کم یہ حق تو دے ہی سکتی ہے قارئین بھی جانتے ہیں اور میرے دیہاتی ماحول میں ابھی تک کچھ بوڑھے شہادتی موجود ہیں جو آج بھی ڈکٹیٹر کے گن گاتے ہیں یا انگریز دور کو یاد کرتے ہیں وجہ عوام کو اس بات سے سروکار نہیں کہ حکمران آمریت سے آیا یا جمہوریت سے مگر انہیں تو مال جان کی حفاظت دو وقت کی باعزت روٹی کسی ماں کو روٹی مانگنے والوں بچوں کا گلا نہ دبانا پڑے کسی باپ کو عید کے کپڑوں کے مطالبہ پر بیٹی کو قتل نہ کرنا پڑے کوئی لاڈلا اپنا چائو پورا کرنے کے لیے کسی غریب کی عزت سے کھیلنے کی جرات نہ کر سکے والسلام۔