تحریر : سید توقیر زیدی پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے گلگت میں ‘سی پیک سیمینار’ سے خطاب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ مودی ہو’ ”را” ہو یا کوئی اور’ ہم دشمن کی چالوں کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں، ہماری سرحدیں محفوظ ہیں اور ہم ملک کا دفاع کرنا جانتے ہیں، پاک چین اقتصادی راہداری کی سکیورٹی ہر قیمت پر یقینی بنائی جائے گی، ملکی سلامتی کے لیے آخری حد سے بھی آگے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بالکل صحیح سمت میں جا رہے ہیں، دہشتگردی ایک بہت بڑا چیلنج تھا اور پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے اس پر قابو پایا، دنیا کچھ بھی سمجھے یہ ہماری بقا کی جنگ ہے اور اسے ہم اسی طرح ہی لڑیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہر حال میں کرنا ہے، پاکستان میں ترقی کرپشن ختم کیے بغیر نہیں ہو گی۔
آرمی چیف نے جن خیالات کا اظہار کیا’ وہ دراصل عوام کے دل کی آواز ہے۔ عوام کی یہ دلی خواہش ہے کہ پاکستان کے وجود کو خطرات سے لاحق کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ ویسے تو آرمی چیف سرحدوں کی حفاظت’ ملک کو دہشت گردی کے حوالے سے درپیش مشکلات اور پاک چین اقتصادی راہداری کی تکمیل یقینی بنانے کے سلسلے میں پاک فوج کے کردار کے بارے میں اظہار خیال کرتے رہتے ہیں لیکن غالباً یہ دوسرا بڑا موقع ہے کہ انہوں نے بھارتی حکمرانوں اور ایجنسیوں کا نام لے کر اور انہیں مخاطب کرکے ڈنکے کی چوٹ پر اپنے مصمم عزائم کا اظہار کیا ہے۔
قبل ازیں پچھلے سال چھ ستمبر کو پاک فوج کے ہیڈ کوارٹرز میں مرکزی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھی آرمی چیف نے بلند بانگ دعویٰ کیا تھا کہ کولڈ یا ہاٹ سٹارٹ’ ہم تیار ہیں۔ یاد رہے کہ کولڈ سٹارٹ بھارتی فوج کا ڈاکٹرائن ہے’ جس کے مطابق طے کیا گیا ہے کہ پاک بھارت جنگ کی صورت میں بھارتی فورسز تیزی سے آگے بڑھ کر پاکستانی فورسز اور تنصیبات کو نقصان پہنچائیں گی’ تاکہ وہ بھارت کے خلاف ایٹمی طاقت کا استعمال نہ کر سکیں۔ آرمی چیف نے تب بھی ببانگ دہل کہا تھا کہ وہ ہر بھارتی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں اور اب ایک بار پھر بھارتی قیادت کو باور کرایا ہے کہ وہ پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے جو کچھ کر رہی ہے’ وہ اس سے پوری طرح واقف ہیں اور اس حوالے سے بعض دوسری قوتیں بھارت کا جو ساتھ دے رہی ہیں’ یہ بات بھی ان سے ڈھکی چھپی نہیں۔
Indian Terrorism
بھارت کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے کے معاملے پر اس طرح کا ردعمل دراصل حکومت کی جانب سے آنا چاہیے تھا’ لیکن بڑے بڑے واقعات رونما ہونے اور ان میں بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد اور ثبوت ہاتھ لگنے کے باوجود ہمارے حکمران اکثر مہر بلب رہتے ہیں اور اگر کبھی بھارتی ایجنسی کے خلاف بیان دینا ناگزیر ہو جائے تو نہایت ملفوف سا بیان جاری کیا جاتا ہے۔ یہ حقیقت اب پوری طرح آشکار ہو چکی کہ بھارت پاکستان کے خلاف مسلسل سازشوں میں مصروف ہے اور اس کی جانب سے خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس کے باوجود ہمارا ردعمل معذرت خواہانہ کیوں ہے؟ وقت آ گیا ہے کہ بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جائے اور بھارتی دہشت گردی کا جواب بیانات سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے دیا جائے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اپنے حالیہ دورہئ بھارت میں جس طرح کے بیانات دیے’ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ امریکہ نے بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ہے اور اب افغانستان کو اس میں شامل کرکے پاکستان کو سائیڈ لائن کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ثبوت اس کا یہ ہے کہ ماہ رواں میں نیویارک میں اقوام متحدہ کی سالگرہ کی تقریبات کے دوران امریکہ’ افغانستان اور بھارت کے درمیان سہ فریقی مذاکرات ہونے جا رہے ہیں۔ ان مذاکرات میں پاکستان کو شامل نہ کرنے کا مطلب؟ کیا بھارت کی افغانستان کے ساتھ کوئی سرحد ملتی ہے یا ان کے درمیان کوئی مذہبی’ لسانی یا ثقافتی رشتہ اور تعلق ہے’ جس کی وجہ سے بھارت کو اتنی اہمیت دی جا رہی ہے۔بی این پی کے مطابق ان مذاکرات کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں ہو سکتا کہ افغانستان میں امن کے قیام کے سلسلے میں ہونے والی کوششوں سے پاکستان کو پیچھے ہٹا کر بھارت کو ذمہ داریاں سونپی جائیں۔
ویسے بھی بھارت’ افغانستان میں سرگرم ہو گا تو ہی چین کے خلاف امریکہ کے مفادات کو آگے بڑھا سکے گا اور چین کی جاسوسی کر سکے گا؛ چنانچہ پاکستانی قیادت کو دوسرے معاملات پر نظر رکھنے اور غیر ملکی سازشوں کو فرو کرنے کے ساتھ ساتھ اس نئے مظہر کا احساس اور ادراک بھی کرنا پڑے گا’ کیونکہ امریکہ نے اگر بھارت کو افغانستان میں ذمہ داریاں سونپیں تو اس کا مطلب ہو گا پاکستان کی مشکلات میں اضافہ اور سی پیک کی تکمیل کی راہ میں مزید رکاوٹیں۔
Narendra Modi
تازہ خبر یہ ملی ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نے آل انڈیا ریڈیو پر بلوچی زبان میں سروس شروع کرنے کی اجازت دی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بھارت کے یوم آزادی پر تقریر میں نریندر مودی نے بلوچستان کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا وہ بلا سبب نہ تھا’ بلکہ اس کا مقصد بلوچستان میں انتشار بڑھانا تھا۔ بھارتی قیادت مستقبل میں اس حوالے سے مزید شرارتیں کر سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نا صرف آپریشن ضرب عضب کو تیز کیا جائے بلکہ جو نئی سازشیں ہو رہی ہیں اور نئے نئے گٹھ جوڑ بنائے جا رہے ہیں ان کے سدباب اور قلع قمع کے لیے بھی منصوبہ بندی کر لی جائے۔
آرمی چیف کا جوش’ حوصلہ’ عزم اور ولولہ اس سلسلے میں خوش آئند ہے۔ کچھ جرآت حکومت کو بھی دکھانا پڑے گی۔ جہاں تک کرپشن اور دہشت گردی کا تعلق ہے تو اس حوالے سے بھی آرمی چیف نے بالکل درست فرمایا کہ جب تک اس گٹھ جوڑ کو نہیں توڑا جائے گا’ اس وقت تک اس عفریت کا مکمل خاتمہ مشکل بلکہ ناممکن ہو گا۔ ملک کو درپیش مسائل کا یقینی حل اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے’ جب حکومت اور فوج سمیت تمام سیاسی و غیرسیاسی قوتیں حقیقی طور پر ایک صفحے پر جمع ہو۔