تحریر : راجہ پرویز اقبال امریکہ نے کہا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے معاملے پر کنٹرول لائن پر موجود پوزیشن برقرار رکھنے کے حق میں ہے جبکہ یہ بات واضح کردی ہے کہ یہ دونوں ممالک پر منحصر ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر کسی بھی مذاکرات کیلئے رفتار ، دائرہ کار اور کردار کا تعین کریں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے معاملے پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ تسلیم کرتے ہیں کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پاکستان کے انتظام میں ہیں جبکہ 1972 میں قائم لائن آف کنٹرول جس نے جموں وکشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا کو بھی تسلیم کرتے ہیں ترجمان نے مزید کہا کہ کشمیر کے معاملے پر امریکہ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ جنوبی ایشیاء میں مسئلہ کشمیر ایک سلگتا ہوا ایشو ہے’ جس نے خطے کے امن کو برباد کرکے رکھا ہوا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین یہ مستقل دشمنی کا سبب ہے۔
اس پر دونوں ممالک کے مابین تین جنگیں ہوچکی ہیں۔ مزید جنگوں کے خطرات بدستور موجود ہیں جبکہ دونوں ہی ایٹمی قوت ہیں۔ مسئلہ کشمیر ہی سے دونوں ممالک کے مابین دیگر کئی تنازعات جنم لے چکے ہیں جن میں پانی کا مسئلہ’ مقبوضہ کشمیر میں اوپر تلے ڈیموں کی تعمیر اور سیاچن پر بھارتی فوج کا قبضہ جیسے معاملات سرفہرست ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر جھڑپوں کا سلسلہ کبھی تھما نہیں۔ مسئلہ کشمیر حل ہو جاتا ہے تو دونوں ممالک کے درمیان دیگر تنازعات خودبخود طے ہو جائینگے’ خطہ امن کا گہوارہ بن جائیگا اور اسلحہ کی دوڑ ختم ہو جائیگی۔ اپنے وسائل کا بڑا حصہ جو دفاع کیلئے مختص کیا جاتا ہے وہ غربت’ پسماندگی اور ناخواندگی کے خاتمے کیلئے استعمال ہوسکے گا۔ پاکستان اور بھارت بہترین محل وقوع پر واقع ہونے کے باعث ترقی و خوشحالی کی منزلیں تیزی سے طے کرتے نظر آئینگے مگر بھارت کی ہٹ دھرمی’ اقوام متحدہ اور امریکہ و برطانیہ جیسی قوتوں کی بے حسی کے باعث مسئلہ کشمیر لاینحل چلا آرہا ہے۔
آج مقبوضہ وادی ایک بار پھر شعلہ جوالہ بن چکی ہے۔ برہان مظفروانی کی 8 جولائی کو بھارتی سفاک فوج کے ہاتھوں شہادت نے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو جلا بخش دی’ جس پر بھارتی بربریت بھی انتہاء کو پہنچ گئی۔ دوماہ سے بھی کم عرصے میں بچوں اور خواتین سمیت 100 کے قریب کشمیری شہید اور سات ہزار پیلٹ گنوں سے معذور اور مفلوج ہوچکے ہیں۔ سیکڑوں کی بینائی جاتی رہی۔ کشمیری حریت پسندوں کی اس جدوجہد کی پاکستان میں بھرپور اخلاقی حمایت کی جارہی ہے۔ مسئلہ کشمیر پوری قوت سے عالمی برادری کے سامنے رکھا گیا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف رواں ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر عالمی رہنماوں سے ملاقاتوں اور اپنے خطاب کے دوران مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔
Kashmir Issue
اْدھر بھارت کی طرف سے پاکستان کیخلاف پراپیگنڈے’ لغو الزامات اور پاکستان میں مداخلت کے اقدامات میں تیزی آگئی ہے۔ پاکستان کو تنہاء کرنے کیلئے وزیراعظم نریندر مودی بذات خود سرگرم ہو گئے۔ نہ صرف دوسرے ممالک کو وہ پاکستان کے بارے میں گمراہ کررہے ہیں بلکہ پاکستان میں اپنے نمک خواروں کو متحرک ہونے کا پیغام دے رہے ہیں۔ حالات اسی ڈگر پر گامزن رہے تو سلگتا ہوا مسئلہ کشمیر الا? بن جائیگا جس سے خطے کا امن تو بھسم ہوگا ہی اسکے عالمی امن پر بھی بدترین اثرات مرتب ہونگے’ اس لئے عالمی برادری کو اس مسئلہ سے نظریں نہیں چرانی چاہئیں۔ عالمی برادری کو مسئلہ کشمیر کا کوئی نیا حل تلاش کرنے کی ضرورت نہیں’ حل اقوام متحدہ نے تجویز کر رکھا ہے۔ عالمی برادری کو اس پر عمل کرانا ہے۔
کنٹرول لائن سیز فائر لائن کا دوسرا نام ہے جس کو مستقل سرحد قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ملکوں کے درمیان جنگ میں وقتی مقبوضات قابض ملک کا حصہ نہیں بن جاتے۔ جنگ بندی کے تنازعات طے ہونے پر قابض ملک کو مقبوضات سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ 65ئ کی جنگ میں اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے پاکستان نے مقبوضہ علاقے خالی کر دیئے تھے۔ امریکہ کس طرح کنٹرول لائن پر موجودہ پوزیشن کو برقرار رکھنے کی حمایت کر سکتا ہے؟ یہ کشمیریوں اور پاکستانیوں کیلئے کسی طور قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ آج امریکی ترجمان کہتے ہیں کہ کشمیر کے معاملے پر بھارت کی پالیسی میں تبدیلی نہیں آئی’ یہ بیان حیرت انگیز ہے۔ امریکہ کی طرف سے کبھی کنٹرول لائن کو برقرار رکھنے کی حمایت نہیں کی گئی۔ تھوڑا سا ماضی میں جھانکیں تو کشمیر پر امریکی موقف اور پالیسی واضح ہو جاتی ہے۔
امریکی نائب وزیر خارجہ برائے عوامی امور پی جے کرالی نے واشنگٹن میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھاکہ امریکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو سمجھتا ہے وہ اس معاملے پر دونوں ممالک کے ساتھ بات بھی کرتا ہے ، اس کا حل دونوں ملکوں نے خود تلاش کرنا ہے اس میںکشمیریوں کو بھرپور نمائندگی دی جانی چاہیے۔ اب جو کچھ کہا گیا اس میں کشمیریوں کی نمائندگی کہاں نظر آتی ہے؟ مئی1998 میں جب بھارت اور پاکستان یکے بعد دیگرے ایٹمی دھماکے کر کے مسلمہ ایٹمی طاقت بن گئے تو جموں و کشمیر کے حوالے سے عالمی برادری کی تشویش میں یکایک اضافہ ہو گیا اور کشمیر نیوکلیئر فلیش پوائنٹ خیال کیا جانے لگا۔ تب امریکی صدر بل کلنٹن نے کشمیر کو کرہ ارض کی خطرناک ترین جگہ قرار دیا تھا۔ پھر اگلے سال جب اس نیو کلیئر فلیش پوائنٹ پر کرگل کی جنگ چھڑی تو صدر کلنٹن نے دونوں ملکوں میں کھلی جنگ روکنے کیلئے ذاتی مداخلت کی۔
Nawaz Sharif
وزیراعظم نواز شریف کو واشنگٹن جانا پڑا اور کلنٹن کے بھارتی وزیراعظم واجپائی سے رابطے اور مفاہمت کے نتیجے میں حالات معمول پر آگئے۔ اس وقت بل کلنٹن نے مسئلہ کشمیر کے حل میں ذاتی دلچسپی لینے کا یقین دلایا تھا جس کی حیثیت طفل تسلی سے زیادہ نہیں تھی تاہم انہوں نے تو اس وقت کنٹرول لائن کو برقرار رکھنے کی بات نہیں کی تھی۔اوباما کی سنیے: 2008ئ میں اپنی صدارتی انتخابی مہم کے دوران یہ اعلان کیا تھا کہ وہ صدر منتخب ہونے پر کشمیر کے عوام کا مسئلہ خود ارادیت حل کرا دینگے۔ اوباما کے اس بیان پر پاکستان کے حکمرانوں،پاکستانی اور کشمیری عوام کی کی توقعات بہت بڑھ گئی تھیں۔ صدر بننے کے بعد اوباما نے کشمیر کا ذکر اذکار ہی نہیں کیا بلکہ بھارت کے دبا? میں آکر اپنے بھارت کے دورے کے دوران یہ بیان جاری کیا کہ امریکہ کشمیر کے معاملے میں ہرگز ملوث نہیں ہو گا۔
یہ سب اپنی جگہ اوباما نے بھی کبھی کنٹرول لائن کو برقرار رکھنے کی بات نہیں کی۔ اب امریکہ کی طرف سے ایک نیا موقف سامنے آگیا جسے اپنی دیرینہ پالیسی قرار دیدیا اور دعویٰ کیا گیا کہ اس میں تبدیلی نہیں ہوئی۔پاکستان اور بھارت کو مسئلہ کشمیر پر کسی بھی مذاکرات کیلئے وقت’ دائرہ کار اور کردار کا تعین کرنا چاہیے مگر بھارت تو مسئلہ کشمیر پر مذاکرات ہی سے انکاری ہے۔ وہ پاکستان کے ساتھ محض دہشت گردی پر ہی مذاکرات کیلئے زور دے رہا ہے۔
Kashmir Violence
اسکی نظر میں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی دہشت گردی ہے اور وہ پاکستان کو اس کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ امریکہ نے بھی بھارت کے اس موقف کی بوجوہ حمایت کی۔ اگر یہ دہشت گردی ہے تو اس کا خاتمہ بڑی آسانی سے ہوسکتا ہے۔ تنازعہ کشمیر طے ہو جائے تو کشمیریوں کی وہ جدوجہد ختم ہو جائیگی جس کی پاکستان حمایت کرتا اور بھارت اسے دہشت گردی قرار دیتا ہے۔ امریکہ کو مسئلہ کشمیر سے لاتعلق نہیں ہونا چاہیے۔ بھارت کے ساتھ اسکے تعلقات زیادہ ہی گہرے ہو چکے ہیں۔ اسے مسئلہ کشمیر کے پرامن حل پر آمادہ کرے جو پوری دنیا کے امن کیلئے خطرہ بنتا جارہا ہے۔