شام (جیوڈیسک) شام کا محصور شہر حلب شہریوں کی تکالیف کی علامت بننے کے ساتھ ساتھ شامی حکومت کے شانہ بشانہ لڑنے والی شیعہ ملیشیاؤں کے لیے بھی بھاری بوجھ ثابت ہوا ہے۔ ان ملیشیاؤں میں ایرانی “پاسداران انقلاب” کا بریگیڈ، لبنانی “حزب الله” اور دیگر شیعہ ملیشیائیں شامل ہیں۔ واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق اس صورت حال کی قیمت ادا کرنے والے غیر ایرانی شیعہ ہیں۔
سال 2012 سے 2016 تک تقریبا 1987 شیعہ جنگجو مارے جا چکے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تقریبا 965 ہلاکتیں “حزب الله” کے جنگجوؤں کی صفوں میں ہوئیں۔ دوسرے نمبر پر “پاسداران انقلاب” اور ایرانی فورسز کے تقریبا 438 ارکان مارے گئے۔
اس کے بعد افغان “فاطمی” ملیشیا کے 429 کے قریب جنگجو موت کی نیند سوئے۔ پاکستانی “زینب بریگیڈ” کے 85 ارکان قتل ہوئے اور عراقی ملیشیاؤں کے 70 جنگجو مارے گئے۔ زیادہ تر ہلاکتیں حلب کے محاذ پر ہوئیں جہاں 229 کے لگ بھگ افراد مارے گئے ، بالخصوص ستمبر 2015 میں روسی مداخلت کے بعد۔
ان ہلاکتوں کے حوالے سے دو معرکے بہت اہم ہیں۔ فروری 2016 میں شامی فوج اور اس کی حلیف ملیشیاؤں نے نبل اور الزہراء شہروں پر کنٹرول کے لیے حملہ کیا جب کہ مئی میں خان طومان میں گھمسان کی لڑائیاں ہوئی تھیں۔
رپورٹ کے مطابق ایران کے مقاصد ، شام کے حوالے سے اس کی جامع حکمت عملی اور حلب پر بشار الاسد کی حکومت کے مکمل کنٹرول کے لیے ایران کی جانب سے مدد کے عزم کو غیر ایرانی شیعہ جنگجوؤں کے سمندر کی ضرورت ہے تاکہ ایرانیوں کے مارے جانے کی شرح کو کم کیا جا سکے۔