واشنگٹن (جیوڈیسک) ایک وفد جس کی قیادت اقوام متحدہ کے سابق سربراہ، کوفی عنان کر رہے ہیں، بدھ کے روز میانمار کے مظالم کے شکار روہنگیا مسلمانوں کے مسائل کے حل کی کوششیں شروع کیں، جس دوران وفد نے نسلی بنیاد پر بے دخل ہونے والے افراد سے ملاقات کی، جس معاملے پر ملک میں انسانی حقوق کی پاسداری کی صورت حال پر تشویش پیدا ہوئی ہے۔
میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی نے یہ نو رکنی کمیشن تشکیل دیا ہے، تاکہ اُنھیں رخائین کی اصل صورت حال پر مشورہ مل سکے، جہاں سنہ 2012 کی جھڑپوں کے بعد نسلی رخائین بودھ اور روہنگیا مسلمان علیحدہ رہ رہے ہیں، جن واقعات میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
ایک لاکھ 25000 افراد خیموں میں مقیم ہیں، جن میں سے اکثریت روہنگیا اقلیت سے تعلق رکھتی ہے، جنھیں میانمار میں شہریت نہیں دی جاتی، جہاں اکثریتی بودھ برادری کے زیادہ تر لوگ اُنھیں بنگلہ دیش سے وارد ہونے والے غیر قانونی تارکینِ وطن خیال کرتے ہیں۔
وفد میں چھ ارکان کا تعلق میانمار سے جب کہ تین غیر ملکی شخصیات ہیں، جن میں کوفی عنان بھی شامل ہیں۔ وفد نے خیموں کا دورہ کرکے ملک کے شمال مغربی علاقے کے اِن نقل مکانی کرنے والے افراد سے ملاقات کی اور دونوں برادریوں کے نمائندوں سے ملے۔
عنان اور اُن کے وفد کے ساتھی ارکان نے اخباری نمائندوں سے گفتگو نہیں کی، لیکن اُنھوں نے ملاقات کے دوران امن کی توقعات کا اظہار کیا۔
‘ہلا مئنت’ داخلی طور پر نقل مکانی کرنے والے’دار پینت’ نامی کیمپ کے نمائندے ہیں۔ بقول اُن کے، ”میں سمجھتا ہوں کہ یہ کمیشن رخائین اور روہنگیا کے درمیان مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہوگا”۔
میانمار میں عشروں سے جاری فوجی حکمرانی کے خاتمے کے بعد مسلمانوں اور بودھ مت کے ماننے والوں کے درمیان نسلی تنائو کھل کر سامنے آیا، جب کہ سخت گیر بودھ راہبوں کی قیادت میں بودھ قوم پرست تحریک نے جنم لیا ہے۔
منگل کو کمشین کی خطے میں آمد کے موقعے پر سینکڑوں افراد اور راہبوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت، جس نے اِن احتجاجی مظاہروں کو منظم کیا، اس کمیشن کی مخالف ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ غیر ملکی اس خطے کی تاریخ سے مانوس نہیں۔
رخائین ریاست کے تشدد کے واقعات پر سوچی کا انداز محتاط قسم کا رہا ہے۔ لیکن، رفتہ رفتہ وہ اس معاملے پر کھل کر بولنے لگی ہیں، جب گذشتہ نومبر میں اُن کی پارٹی انتخابات میں تاریخی فتح سے ہمکنار ہوئی۔
اس ہفتے، اُنھوں نے اس تنازعے کو ”ملک کے سیاسی جسم پر ایک گھائو” قرار دیا، جسے بقول اُن کے، نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
مسلمانوں کے مذہبی رہنما، کوا زان لا نے ‘تھیت کے پائن’ نامی کیمپ میں کمیشن سے ملاقات کے دوران بتایا کہ اُن کی برادری کو امن چاہیئے۔ اس کیمپ میں 5000 سے زائد لوگ مقیم ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ”دونوں برادریاں صدیوں سے ایک ساتھ رہتی رہی ہیں۔ ہم روہنگیا رخائین لوگوں کے ساتھ رہنا چاہیتے ہیں ”۔