تحریر : شاہد شکیل اب پچھتاوت کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت،اے کاش کہ اب ہوش میں آنے نہ پائیں،ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے،میں نے کیوں ایسا کیا ،اب میں ان غلطیوں کا ازالہ کیسے کروں، وغیرہ جیسے خیالات کو ذہن سے کوئی نہیں جھٹک سکتا ،ہو سکتا ہے جوانی جوبن پر ہو تو ایسے خیالات یا سوچ ذہن میں ایک ہوا کا جھونکا یا آوارہ لہر کی طرح آتے اور غائب ہو جاتے ہوں لیکن بستر مرگ پر انسان ایسے خیالات سے اپنی جان جو چند لمحوں کی محتاج ہوتی ہے نہیں چھڑا سکتا کیونکہ اگر کوئی ستر ،اسی ،نوے یا سو سال تک زندگی کی بہاریں دیکھ چکا ہو اور موت کے قریب ہو تو اس کے لئے جسمانی تکلیف کے ساتھ ساتھ روحانی تکلیف سے بھی نجات حاصل کرنا ہوتی ہے جو بہت مشکل کام ہوتا ہے اور خاص طور پر اس وقت جب وہ چند لمحوں کا اس دنیا میں مہمان ہو۔ ایک نرس نے قریب المرگ افراد کے مرنے سے قبل ان کے خیالات، احساسات، خواہشات، ان گنت غلطیوں اور پشیمانیوں پر سے اس وقت پردہ اٹھایا جب وہ چند لمحوں کے مہمان تھے یعنی بقول نرس انکی روح پرواز کرنے ہی والی تھی اور ان کے لبوں پر یہ الفاظ تھے کہ کاش ہم ایسا نہ کرتے۔
نرس کا کہنا ہے میں کئی برسوں سے پرائیویٹ گھروں میں عمر رسیدہ اور قریب المرگ افراد کی دیکھ بھال کر رہی ہوں کیونکہ جب ایسے افراد کو ہوسپیٹل سے اس لئے فارغ کر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے گھر میں مرنا چاہتے ہیں یا ڈاکٹرز انکی زندگی اور موت کے درمیان کی مدت بتا دیتے ہیں ایسے افراد علاج کے قابل نہیں ہوتے اور اپنی مرضی سے گھر جانے کی گزارش کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ اپنے مانوس گھر میں اپنی تمام فیملی ممبرز کی موجودگی میں دنیا کو خیر باد کہیں،میں عام طور پر زیادہ سے زیادہ بارہ ہفتوں تک انکی دیکھ بھال کرتی ہوں کیونکہ ڈاکٹرز رپورٹس کے مطابق ان افراد کو بارہ ہفتوں کے درمیان دنیا چھوڑنی ہوتی ہے۔نرس کا کہنا ہے انسان جب اپنی موت سے جنگ لڑ رہا ہوتا ہے تو وہ مزید پختہ ہو جاتا ہے اور اس میں کئی غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں بالخصوص وہ کچھ زیادہ جذباتی ہوجاتا ہے جو کہ ایک نیچرل عمل ہے ان کے جذبات میں عام طور پر انکار، خوف،پچھتاو ہ ،کاش، خواہشات، قبولیت اور دیگر کئی عوامل کی جھلک دکھائی دیتی ہے کہ کاش ایسا نہ ہوتا ،کاش میں ایسا قدم نہ اٹھاتا اور اسی شش و پنج اور کشمکش میں اپنی موت سے جنگ کرتے ہوئے تھک کر ہار جاتے ہیں
ایسے افراد زندگی ختم ہونے سے قبل اپنی بیتی زندگی یعنی ماضی میں کھو جاتے ہیں اور انہیںیاد کرنے کے ساتھ ساتھ چاہتے ہیں کہ جو ہوا سو ہوا لیکن اب میں پر امن اور پرسکون موت مر جاؤنگا لیکن ایسا نہیں ہوتا اس عمل کو تڑپ کا لفظ دینا مناسب نہیں بلکہ ایک جھونکا کہنا درست ہوگا کیونکہ تیزرفتار زندگی بھی تو ایک جھونکا ہی ہے یہ آیا اور وہ گیا۔عام طور پر مرنے سے قبل لوگوں کے لبوں پر کچھ ایسے الفاظ ہوتے ہیں کہ کاش مجھ میں ہمت ہوتی ،کاش میں اپنی زندگی میں سچ بولتا، وفادار رہتا یا رہتی،اپنی زندگی خود جیتا،کسی دوسرے کی پیروی یا تقلید نہ کرتا،میں نے زندگی سے کچھ زیادہ توقعات وابستہ کر لیں تھیں،لوگوں پر زیادہ بھروسہ کیا،لیکن یہ سب کچھ تو ایک سپنا تھا اور ان سپنوں نے بھی مجھے دھوکہ دیا ،اب مجھے احساس ہو رہا ہے کہ اپنے سپنے بھی اپنے نہیں ہوتے،سپنے دیکھنا بری بات نہیں لیکن سپنے کیوں تعبیر نہیں ہوتے کیوں لوگ ہمارے سپنے چکنا چور کر دیتے ہیں کیا اسی کا نام زندگی ہے کیا یہ ہی سب کچھ ہے کہ پیدا ہو جاؤ سپنے دیکھو اور مر جاؤ۔
Dream
سوال یہ ہے کہ کیوں انسان سپنے دیکھتا ہے اس لئے کہ لوگ انہیں چکنا چور کر دیں یا خود اپنے ہاتھوں سے اپنے سپنوں کو تباہ وبرباد کر دیا جائے اور احساس تک نہ ہو کہ وہ آخر وہ کر کیا رہا ہے؟۔ عام طور پر دنیا میں نصف سے بھی کم انسانوں کے خواب پورے ہوتے ہیں یا وہ جو کچھ سوچتے ہیں پا لیتے ہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کئی انسان سپنا پورا نہ ہونے پر اپنی جان بھی لے لیتے ہیں،بنیادی طور پر یہ ضروری نہیں کہ انسان جو سوچے یا خواب دیکھے اسکی تعبیر بھی ملے یا سوچ پر عملی جامہ پہنا سکے ،سوچا جائے تو کیا یہ کم ہے کہ کم سے کم کو بھی زیادہ سمجھا جائے اور ایسی سوچ ہی پیدا نہ کی جائے جو پوری ہی نہ ہوسکے کیونکہ کئی افراد کاش اور اگر مگر جیسے لفظوں کے بھنور میں پھنس کر معمولی سی زندگی سے بھی بہت زیادہ توقعات قائم کر لیتے ہیں اور نتیجہ مثبت ظاہر نہ ہونے پر دل براشتہ ہو جاتے ہیں۔
نرس کا کہنا ہے کچھ لوگ کہتے ہیں میں سوچتا ہوں میں نے بہت محنت و مشقت کا کام زندگی میں کیا مجھے نہیں کرنا چاہئے تھا کیونکہ مجھے میری محنت کا صلہ نہیں ملا،کچھ لوگ کہتے ہیں کیوں میں نے ہمت اور جرات کا مظاہرہ نہیں کیا اگر کرتا تو میری خواہش پوری ہو جاتی،ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی خواہشات ،احساسات اور جذبات کو منوں مٹی میں دبا دیتے ہیں فقط اس لئے تاکہ دوسرا خوش رہے اور اس کے خوش رہنے سے میں خوش ہوں پرسکون ہوں میں حاصل نہ کر سکا تو کوئی بات نہیں کوئی دوسرا حاصل کر لے اور شاید امن قائم رہے۔لیکن اس احساس سے وہ سب کچھ گنوا دیتے ہیں اور دوسرے اس کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔نرس کا کہنا ہے کئی بار ہم ایسے انسانوں کے ری ایکشن کو محسوس نہیں کر سکتے لیکن اگر ایک انسان کے اندر احساس نام کی کوئی چیز ہے تو وہ محسوس کر سکتا ہے کہ کرب اور اذیت کیا ہوتا ہے کیونکہ زندگی کے کئی لیول ہیں اور ایسے لیول بھی ہیں جہاں انسان کچھ نہیں کر سکتا بس مر جاتا ہے،یہ ضروری تو نہیں کہ ہر انسان ہر بازی جیتے کیونکہ ہار بھی زندگی کا ایک تلخ لیول ہے۔
جب انسان بسترمرگ پر ہوتا ہے تو اسکے خیالات دیگر عام انسانوں سے مختلف ہوتے ہیں وہ چاہتا اور سوچتا ہے کہ اگر زندگی مجھے کچھ اور وقت دے دیتی تو شاید میں اپنی غلطیاں سدھار سکتا خوش رہتا،دوسروں کو خوش رکھتا اور ہر وہ اچھا کام کرتا جس کے لئے میں پیدا ہوا لیکن زندگی تو بے وفا ہے اور موت اسکا فل سٹاپ ہے اور یہ فل سٹاپ ہر انسان کی زندگی میں آتا ہے۔میں یہ کہتا ہوں کہ ہر انسان کی کوشش ہونی چاہئے کہ انسان ہونے کا حق ادا کرے کسی انسان کو دکھ اور تکلیف نہ پہنچائی جائے تب ہی وہ سہی معنوں میں انسان ہے وگر نہ ایسے انسان اور حیوان میں کیا فرق رہ جاتا ہے جو انسان کو انسان نہ سمجھے ،زندگی ایک ہی بار ملتی ہے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ دیگر انسانوں میں بانٹیں سے کم نہیں ہوتی بڑھ جاتی ہے۔