تحریر: حبیب اللہ سلفی حج بیت اللہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے اتحاد و یکجہتی کی علامت،باہمی الفت و محبت کا اہم ذریعہ اور ایک ایسی عبادت ہے جو خالص اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا مظہر اور اسکی اطاعت کا نمونہ ہے۔ایشیا ،یورپ اور افریقہ سمیت پوری دنیا سے لوگ یہاں اللہ کے ذکر اور اسکی نشانیوں کی تعظیم کے لئے آتے ہیں۔حج کا ایک بہت بڑا مقصد مسلمانوں کے درمیان مفاہمت،مشاورت اور تعاون کی فضا عام کرنا ہے تا کہ مسلمان ایمان و اسلامی بھائی چارے کے ایک مضبوط تعلق میں مربوط ہو جائیں۔حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لئے پوری مسلم امہ کے لئے دروازے کھلے ہیں تا ہم یہاں یہ بات ضرور مد نظر رہنی چاہئے کہ اللہ رب العزت نے حرمین شریفین کی ولایت مسلمانوں کے دینی مرکز سعودی عرب کو سونپی ہے۔
لہذا تمام مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ حج جیسی عظیم عبادت کو آسان بنانے کے لئے انتظامی طور پر جو فیصلے کیے جائیںوہ انہیں دل سے تسلیم اور ان پر عمل کریں۔ایسی کوئی بھی پالیسی جس کا مقصد حج کے فریضہ کو راہ رست سے ہٹانا یا مسلمانوں کے مابین اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہو اسے کسی صورت درست نہیں قرار دیا جا سکتا۔اسلام نے حج کو عبادت اور اطاعت کا ذریعہ بنایا ہے اس پر سیاست کرنا اور تفرقہ پھیلا کر مسلمانوںکو تقسیم کرنا جائز نہیں ہے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ ان دنوں حج کے ایام ہیں پوری دنیا سے لاکھوں لوگ دینی جذبہ کے تحت سرزمین حرمین شریفین پر پہنچ چکے ہیں اور اللہ کے حضور سر بسجود ہو کر اپنی غلطیوں ،کوتاہیوں کی معافی طلب کرتے ہوئے اپنی حاجات و مناجا ت پیش کر رہے ہیں کہ ان حالات میںایک بار پھر حج جیسی عظیم عبادت کے حوالہ سے امت میں اختلافات کو ابھارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اور اس کے لئے گزشتہ برس حج کے موقع پر شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران بھگدڑ مچنے سے پیش آنے والے سانحہ کو بنیاد بنایا جا رہا ہے جس میں سات سو سے زائد افراد شہید و زخمی ہوئے۔
یقینا یہ ایک افسوسناک واقعہ تھا جس پر پوری دنیا میں رنج و غم کا اظہار کیا گیا تاہم دیکھنا یہ ہے کہ اس سانحہ کے اسباب کیا تھے اور یہ کیوں پیش آیا؟انتظامی حوالہ سے اگر دیکھا جائے تو کچھ عرصہ قبل تک جمرات ڈبل سٹوری تھا اور حاجیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ناکافی ہونے کی وجہ سے ہر سال حج کے موقع پر بھگدڑ مچنے سے سینکڑوں افراد شہید ہو جاتے تھے جس پر سعودی حکومت نے ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے جمرات کی توسیع کرتے ہوئے سوا چار ارب ریال کی لاگت سے وادی منیٰ میں 950میٹر طویل اور 80میٹر چوڑا پانچ منزلہ جمرات پل کمپلیکس تعمیر کیا اور یہاں آنے اور واپس جانے کے لئے12علیحدہ علیحدہ داخلی و خارجی راستے بنا دیئے جس پر ایک گھنٹہ میں تین لاکھ افراد کے رمی کرنے کی گنجائش پیدا ہو گئی ہے۔2006میں اس مقام پرتین سو سے زائد حجاج کرام شہید ہوئے تو شاہ عبداللہ بن عبدالعزیزکے حکم پر اس کثیر المنزلہ منصوبے کا آغا ز کیا گیا تھا، اس منصوبہ کی تکمیل کے بعد یہ پہلا حادثہ تھا جو گزشتہ برس یہاں پیش آیا۔
Hitting Pebbles
سعودی وزارت حج کی جانب سے تمام معلمین کو ہدایات جاری کی جاتی ہیں کہ کنکریاں مارنے کے لئے حجاج کو طے شدہ شیڈول کے مطابق روانہ کیا جائے تا کہ جمرات پل پراکٹھے ہونے والے ہجوم کو کنٹرول کیا جا سکے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ بہت سے مسلمان سعودی حکومت کی جانب سے جاری کردہ ان ہدایات پر عمل نہیں کرتے اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگیاں بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔پچھلے سال بھی حج کے دوران سانحہ مسلمانوں کے ایک گروہ کی طرف سے اسی عجلت پسندی کی وجہ سے پیش آیا جس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد شہید ہوئے ۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اس میں سعودی حکومت کا کیا قصور ہے؟ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے اس بات کا اہتمام کریں کہ ہمارے ملکوں سے جو لوگ حج بیت اللہ کی زیارت کے لئے جاتے ہیں انکی اس انداز میں تربیت کی جائے کہ وہ سعودی حکومت کی جانب سے حادثات سے بچنے کے لئے دی گئی ہدایات پر عمل در آمد کریں مگرصورتحال یہ ہے کہ ہم اس جانب توجہ نہیں کرتے اور سعودی عرب پر ناقص انتظامات کے حوالہ سے الزام تراشیاں شروع کر دیتے ہیں ۔
اب ادھر حج کے دن قریب ہیںاور ایک برادر اسلامی ملک کی طرف سے سعودی عرب پر حجاج کرام کے ساتھ غیر منصفانہ رویہ کا الزام لگاتے ہوئے یہ کہا جا رہا ہے کہ مسلم اقوام کو ان مقدس مقامات کے کنٹرول اور دیکھ بھال کے لئے غوروفکرکرنا چاہئے۔میں سمجھتا ہوں کہ عین حج کے ایام میں اس طرح کی باتوں سے محض امت میں اختلافات پیدا کرنے اور مسلمانوں کو آپس میں تقسیم کرنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ایران کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے ایرانی حاجیوں کی سیکورٹی اور ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کی تجویز قبول نہیں کی اور اس حوالہ سے ہونے والے مذاکرات میں سرد مہری دکھائی تو دوسری جانب سعودی عرب کا کہنا ہے کہ اس نے کسی مسلمان ملک کو مقدس سرزمین میں حج اور عمرہ کے لئے آنے سے نہیں روکا تاہم حج کے دوران مظاہروں بالخصوص مسلکی رسومات کی ادائیگی کی اجازت نہیں دی جا سکتی اس سے انتشار پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے مابین سفارتی تعلقات منقطع ہیں یہ تعلقات خاص طور پر اس وقت کشیدہ ہوئے جب سعودی عرب میں بغاوت کے الزام میں گرفتار بعض لوگوں کو پھانسی کے مسئلہ پر ایران میں سعودی سفارتخانہ کو جلایا گیا۔
اس کے بعد فضائی ،تجارتی رابطے بھی ختم ہوئے ۔بعض ناعاقبت اندیش لوگوں کی جانب سے اس وقت بھی سوشل میڈیا پر بائیکاٹ حج کا ٹرینڈ چلایا گیا لیکن اس سب کے باوجود یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ اس وقت بھی سعودی عرب کی جانب سے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہی کہا گیا تھا کہ مکہ اور مدینہ میں آنے والے تمام ملکوں کے زائرین کو خوش آمد ید کہا جائے گااور انہیں ہر قسم کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔اسوقت مجھ سمیت دنیا بھر سے آنے والے صحافیوں کی کثیر تعداد سعودی عرب میں موجود ہے اور اپنی آنکھوں سے سعودی حکام کی طرف سے کئے جانے والے شاندار انتظامات دیکھ رہی ہے۔تمامتر حکومتی ادارے حتیٰ کی تعلیمی اداروں کے طلبا،اساتذہ اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی حجاج کرام کی خدمت کو اپنی سعادت سمجھتے ہوئے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔ایک زبردست جذبہ ہے جو اس حوالہ سے پوری قوم میں دیکھنے کو ملتا ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ حج جیسی عظیم عبادت کو ہمیں اپنے باہمی،سیاسی اختلافات سے دور رکھنا چاہئے۔
King Salman bin Abdul Aziz
ویٹیکن سٹی کی طرز پر حرمین شریفین کے انتظامات میں دوسرے ملکوں کو شریک کرنے کا مطالبہ مسلمانوں کے باہمی اتحاد ،اتفاق اور مرکزیت ختم کرنے کے مترادف ہے۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دور اقتدار میں جس طرح حرمین کی توسیع کی جا رہی ہے اس پر پوری مسلم امہ انہیں خراج تحسین پیش کرتی ہے۔حجاج کرام کو جس طرح یہاں عزت و احترام دیا جاتا ہے اور انکی خدمت کی جاتی ہے یہ اسی حسن سلوک اور بہترین انتظامات کا نتیجہ ہے کہ ہر سال دنیا کا سب سے بڑا اجتماع یہاں منعقد ہوتا ہے مگر کسی قسم کی بد نظمی اور انتطام و انتصرام کی کمی دیکھنے میں نہیں آتی،سعودی عرب کی سربراہی میں 34اسلامی ملکوں کے اتحاد کے بعد وہ پورے عالم اسلام کی قیادت کرتا دکھائی دیتا ہے۔مسلمانوں کے دینی مرکز ہونے کی حیثیت سے بھی اسے دنیا بھر میں ایک ممتاز مقام حاصل ہے۔ایران کو مسلم امہ سے الگ تھلگ نظر آنے کی بجائے اس کا حصہ بننا چاہئے۔
سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ حج جیسی عظیم عبادت کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ایران کی طرف سے جب سعودی حج پروٹوکول پر دستخط کرنے سے انکار کرکے اپنے شہریوں کو حج کے لئے نہ بھجوانے کا اعلان کیا تو ایک ماہ قبل مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم اوآئی سی میں شامل پچاس اسلامی ملکوں کی طرف سے اس اقدام کو غلط قرار دیا گیا یہ ایک واضح پیغام تھا کہ دنیا بھر کے مسلمان ملک اس فیصلہ پر خوش نہیں ہیں۔میں سمجھتا ہوںکہ اس کے بعد ایران کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنا چاہئے تھا مگر افسوس کہ ایسا نہیں کیا گیا۔بہرحال ضرورت اس امر کی ہے کہ سب ملک مسلم امہ کے باہمی اتحاد و یکجہتی کو مدنظر رکھیں اور ایسے ایشوز کو چھیڑنے سے گریز کیا جائے جس سے امت مسلمہ میں اتحاد و اتفاق کی فضا متاثر ہوتی ہو اور اسلام دشمن قوتوں کو ہمارے اندرونی اختلافات سے فائدہ اٹھا کر اپنے مذموم ایجنڈوں کی تکمیل کا موقع نہ مل سکے۔