اورزگان (جیوڈیسک) صوبائی ترجمان کے بقول شہر کے گردونواح میں واقع تمام چیک پوائنٹس پر طالبان نے یا تو قبضہ کر لیا ہے یا نہیں تباہ کر دیا ہے اور انھوں نے کابل حکومت سے درخواست کی کہ فوری طور پر یہاں کمک بھیجی جائے۔
افغانستان میں جنوبی صوبے اورزگان کے مرکزی شہر میں طالبان ہو گئے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ علاقے میں شدید لڑائی جاری ہے جب کہ تمام حکومتی عہدیدار شہر سے نکل گئے ہیں۔
امریکی خبر رساں ایجنسی “ایسوسی ایٹڈ پریس” کے مطابق صوبائی ترجمان دوست محمد نایاب کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد ترین کوٹ شہر میں صرف پولیس ہیڈ کوارٹر حکام کے کنٹرول میں ہے اور جمعرات کی صبح طالبان نے اس کا بھی محاصرہ کر لیا۔
نایاب کے بقول شہر کے گردونواح میں واقع تمام چیک پوائنٹس پر طالبان نے یا تو قبضہ کر لیا ہے یا انہیں تباہ کر دیا ہے اور انھوں نے کابل حکومت سے درخواست کی کہ فوری طور پر یہاں اضافی کمک بھیجی جائے۔
انھوں نے جانی نقصان کے بارے میں تو تفصیل فراہم نہیں کی لیکن اس خدشے کا اظہار کیا کہ ترین کوٹ شہر جلد ہی مکمل طور پر طالبان کے قبضے میں جا سکتا ہے۔
رواں ہفتے کے اوائل میں طالبان نے ترین کوٹ میں ایک مربوط حملہ کیا تھا اور کئی اہم چوکیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔
افغان میڈیا کے مطابق ملک کی اسپیشل فورسز کے دستے مقامی فورسز کی مدد کے لیے علاقے میں پہنچ گئے ہیں، تاکہ طالبان کو وہاں سے باہر دھکیل دیا جائے۔
حالیہ مہینوں میں طالبان کے خطرے سے دوچار ہونے والا ترین کوٹ تیسرا بڑا شہر ہے۔ اس سے قبل شمال میں قندوز اور جنوبی صوبہ ہلمند کے مرکزی شہر لشکر گاہ پر طالبان کامیاب چڑھائی کر چکے ہیں۔
گزشتہ سال کے اواخر سے طالبان نے افغانستان میں اپنی کارروائیوں کو تیز کیا تھا لیکن رواں برس مئی میں پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں سرحدی علاقے میں امریکی ڈرون حملے میں طالبان کے امیر ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد ان میں مزید تیزی دیکھی جا رہی ہے۔
طالبان کے نئے سربراہ ملا ہبت اللہ اپنی جنگی کارروائیوں کو جاری رکھنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہی افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج کے امریکی کمانڈر جنرل جان نکلسن نے بتایا تھا کہ صرف جولائی کے مہینے میں طالبان کے خلاف برسرپیکار افغان اور پولیس کے 900 سے زائد اہلکار مارے گئے ہیں۔