واشنگٹن (جیوڈیسک) ازبکستان کے پارلیمان نے جمعرات کے روز ملک کے وزیر اعظم کو نیا قائم مقام صدر مقرر کیا۔ وہ اسلام کریموف کی جگہ لیں گے جو ایک طویل مدت تک ملک کے مطلق العنان حکمراں رہے، جن کا حالیہ دِنوں 78 برس کی عمر میں انتقال ہوا۔
ایک ملک بدر ازبک رہنما نے فوری بیان میں اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے، اِس کی مذمت کی ہے۔
شوکت مرزائیف کو، جو سنہ 2003 سے کریموف کے وزیر اعظم رہتے چلے آئے ہیں، پارلیمان کے ایوان ِاعلیٰ اور ایوان ِ زیریں کے مشترکہ اجلاس میں ازبکستان کے آئندہ صدارتی انتخاب میں پسندیدہ امیدوار قرار دیا گیا، جو اگلے تین ماہ کے دوران منعقد ہوسکتے ہیں۔
محمد صالح نے، جو ممنوعہ ’ارک‘ (آزادی) ڈیموکریٹ پارٹی کے رہنما ہیں، اور ایک دہائی سے زیادہ مدت سے ترکی کے شہر استنبول میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، روس کے نجی ٹیلی ویژن چینل ’رین‘ کو جمعرات کو بتایا کہ ازبک پارلیمان کا یہ اقدام ’’آئین کی سریح خلاف ورزی ہے‘‘ اور اِسے ’’اقتدار چھیننے کے لیے‘‘ ایک ’’خاموش انقلاب‘‘ قرار دیا۔
ازبکستان کے آئین کی شق 96 کے مطابق، پارلیمان کے ایوان اعلیٰ کے سربراہ، نعمت اللہ یلدشیف کو نیا قائم مقام صدر قرار دیا جانا چاہیئے تھا۔ لیکن، ٹیلی ویژن چینل ’رین‘ کی اطلاع کے مطابق، اُنھوں نے معذرت کا اظہار کیا۔
ٹیلی ویژن چینل نے صالح کے حوالے سے بتایا ہے کہ قائم مقام صدر کا عہدہ قبول نہ کرنے کے لیے یلدشیف پر زور بار ڈالا گیا ہوگا یا اُنھیں بلیک میل کیا گیا ہوگا۔
دینل کسلوف ’فرگانہ‘ کے چیف ایڈیٹر ہیں، جو ازبکستان کا اطلاعات کا ایک آزاد ادارہ ہے۔ اُنھوں نے ٹی وی چینل ’رین‘ کو بتایا کہ مقامی ازبک اہل کاروں اور دارلحکومت تاشقند کے مبصرین کے لیے یہ پارلیمان کی جانب سے ایک پریشان کُن فیصلہ تھا؛ جنھیں یقین تھا کہ یلدشیف اگلے قائم مقام صدر ہوں گے۔ کسلوف نے کہا کہ ازبک قانون کے تحت یلدشیف کو یہ تقرری قبول کرنی تھی۔