افغانستان (جیوڈیسک) افغانستان میں حکام نے بتایا ہے کہ جنوبی صوبہ اورزگان کے مرکزی شہر ترین کوٹ میں گھس آنے والے طالبان عسکریت پسندوں کو شہر سے باہر دھکیل دیا گیا ہے۔
جمعرات کو طالبان شہر کے گردونواح میں قائم چیک پوائنٹس کو تباہ کرنے کے بعد ترین کوٹ میں داخل ہو گئے تھے۔ اس حملے میں کم ازکم آٹھ افغان فوجی مارے گئے تھے۔
رات بھر شہر میں سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان شدید لڑائی کی اطلاعات موصول ہوتی رہیں اور حکام نے کابل سے تازہ کمک بھجوانے کی درخواست کی تھی۔
جمعہ کو وزارت دفاع کے ایک نائب ترجمان کے مطابق شہر کے شمال مشرقی حصے میں چند ایک مقامات پر لڑائی جاری ہے جب کہ فوج اور پولیس نے ترین کوٹ کے تمام اسٹریٹیجک مقامات کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
صوبائی ترجمان دوست محمد نایاب نے بتایا کہ طالبان جنگجو اب شہر سے تقریباً پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہیں اس کے لیے وہ کابل سے بھیجی گئی تازہ کمک اور امریکی فضائی مدد کے لیے شکرگزار ہیں۔
حکام کے مطابق اس لڑائی میں 80 سے ایک سو کے لگ بھگ عسکریت پسند مارے گئے۔
تاہم طالبان کے ایک ترجمان قاری یوسف احمدی کی طرف سے یہ دعویٰ سامنے آیا ہے کہ ان کے جنگجو اب بھی شہر میں موجود ہیں اور طالبان کے جانی نقصان سے متعلق حکومتی دعوے غلط ہیں۔
طالبان نے حالیہ مہینوں میں شمالی شہر قندوز اور جنوبی شہر لشکر گاہ پر بھی چڑھائی کی تھی اور وہاں کچھ دیر کے لیے قبضہ کیے رکھا۔
عسکریت پسندوں نے افغان حکومت سے امن بات چیت سے انکار کرتے ہوئے یہ اعلان کر رکھا ہے کہ جب کہ تک افغانستان سے تمام بین الاقوامی افواج واپس نہیں چلی جاتیں وہ مذاکرات نہیں کریں گے اور اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے۔
2014ء کے اواخر میں بین الاقوامی افواج اپنا لڑاکا مشن مکمل کر کے اپنے وطن واپس چلی گئی تھیں لیکن ایک معاہدے کے تحت اب تقریباً 12000 بین الاقوامی فوجی، جن میں اکثریت امریکیوں کی ہے، یہاں مقامی سکیورٹی فورسز کی تربیت اور انسداد دہشت گردی کی جنگ میں معاونت کے لیے تعینات ہیں۔
افغان سکیورٹی فورسز کو طالبان کے علاوہ ملک کے مشرقی حصے میں شدت پسند گروپ داعش کی طرف سے بھی مزاحمت کا سامنا رہا ہے۔ لیکن بین الاقوامی افواج کی مدد سے یہ شدت پسندوں کے خلاف اہم اہداف حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئی ہیں۔