شام جنگ بندی: حمایت و شکوک پر مبنی ملا جلا ردِ عمل

Syria

Syria

واشنگٹن (جیوڈیسک) ترکی اور شامی حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے ایک کلیدی گروپ نے ہفتے کے روز امریکہ اور روس کے مابین طے ہونے والے پیچیدہ اور کسی حد تک خفیہ جنگ بندی کے معاہدے کی حمایت کا یقین دلایا ہے۔

اِس کی شرائط کے تحت، جنگ بندی کا آغاز پیر کے روز سورج غروب ہونے کے وقت سے شام بھر میں ہو جائے گا، تاکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر وسیع طور پر امداد کی رسائی میسر آسکے۔

ترکی کی وزارتِ خارجہ نے، جس نے گذشتہ ماہ کے اواخر میں شام میں فوج روانہ کی، جنگ بندی اور معاہدے کی حمایت کا اعلان کیا ہے، جو سمجھوتا ہفتے کی صبح جنیوا میں طے پایا، جو پانچ برس سے جاری لڑائی کے خاتمے کے لیے ایک طویل مدتی سیاسی حل کی ابتدا خیال کیا جاتا ہے۔

شام کی حزب مخالف سے تعلق رکھنے والی افواج نے معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اِس بات پر شبے کا اظہار کیا ہے آیا جنگ بندی پائیدار ثابت ہوسکتی ہے؛ اِس جانب دھیان مبذول کراتے ہوئے کہ روس اور شامی فوج نے پچھلے سمجھوتے کی پاسداری نہیں کی تھی۔

سیریئن اپوزیشن کی اعلیٰ مذاکرات کمیٹی کے ایک بیان میں، بمسمہ کودمانی نے کہا ہے کہ شام پر روس کا اثر و رسوخ ”ہی ایک ضمانت ہے کہ حکومت اس پر عمل درآمد کرے”۔

جنیوا معاہدے کی خبر سے حلب کی صورت حال میں فوری بہتری نہیں آئی، جہاں فوج نے باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے پر حملے جاری رکھے ہیں، بظاہر اس سوچ پے پیش نظر کہ جنگ بندی سے پہلے پہلے جتنے علاقے پر قبضہ کیا جاسکے، کیا جائے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اعلیٰ اہل کار نے کہا ہے کہ ملک میں متواتر سات روز تک “”تشدد کے واقعات میں کمی”، اور حلب میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی خاطر خواہ فراہمی ”دو اہم معاملات ہیں جو اِس معاہدے پر عمل درآمد سے ہی پورے ہو سکتے ہیں”۔

اہل کار نے کہا ہے کہ سماجی میڈیا پر صورت حال کا تجزیہ اور تنقید ”کچھ ہلکی سی تھی” اور زور دے کر کہا کہ ”فوری طور پر آپ شام میں حالات میں بہتری نہیں دیکھ سکتے”۔

اہل کار کے مطابق، سمجھوتا جس پر عمل درآمد 12 ستمبر کو، جو عید کی تعطیل کا دِن ہوگا، غروب آفتاب کے وقت سے شروع ہوگا، جس کے کہا گیا ہے کہ اس کی پرکھ ایک ہفتے کے اندر ”تشدد کے واقعات میں کمی” کا معیار ہوگا۔ اگر ایسا ہوا تو امریکہ اور روس جہادی تنظیم النصرہ محاذ کے ساتھ ساتھ نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے گروپ کے خلاف مربوط طریقے سےمل کر فضائی کارروائی کریں گے۔ جب مشترکہ فضائی حملوں کی ابتدا ہو تو پھر، سمجھوتے کے تحت، شامی فضائی افواج اپنے حملے بند کردیں گی۔

سمجھوتے کا اعلان، جس کو طے کرنے کے لیے ہفتوں تک سخت سفارت کاری ہوتی رہی، امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے جنیوا میں ہفتے کے روز ایک مشترکہ اخباری کانفرنس میں کیا۔

کیری نے کہا ہے کہ ”حکومتِ شام کے فضائی حملے شہری ہلاکتوں، لوگوں کی نقل مکانی اور روزمرہ کی جارحانہ خلاف ورزیوں کا موجب بنے ہیں”۔

اُن کے بقول، ”کلیدی علاقوں میں حکومت کی تمام فضائی کارروائیاں رکنا لازم ہیں۔ ایسے علاقوں کی وضاحت کی جاچکی ہے، جس سے شہری مضافات میں بیرل بم اور بلاامتیاز بم باری کو روک جانا چاہیئے”۔

کیری کے الفاظ میں ”اس سے تنازع کی صورت میں تبدیلی آنی چاہیئے”۔ لاوروف نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ بندوبست کے بارے میں، روس نے شامی حکومت کو آگاہ کر دیا ہے، اور وہ ”اِنھیں پورا کرنے پر تیار ہے”۔