دنیا بھر میں کیے گئے ایک مطالعے کے بعد درجنوں ایسے جین دریافت ہوئے ہیں جو بلڈ پریشر کے امراض کی وجہ بن سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ جین پہلے ہی دریافت ہوچکے ہیں لیکن بلڈ پریشر میں ان کا کردار اب دریافت ہوا ہے اوروہ بھی جین کے بعض حصے اس ضمن میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تاہم اس مطالعے 3 نئے جین بھی ملے ہیں جو پہلے سے معلوم جین کے مقابلے میں بلڈ پریشر پر دوگنے اثر انداز ہوتے ہیں۔
بلڈ پریشر کے امراض دنیا بھر کی آبادی میں فالج ( اسٹروک) اور امراضِ قلب میں شریانی امراض کی اہم وجہ ہے۔ اس کے علاوہ دماغی جریانِ خون اور قبل از وقت اموات کی بڑی وجہ بھی یہی ہے اور اسے ’خاموش قاتل‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس لیے اس اہم مطالعے کو خصوصی اہمیت دی جارہی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 75 لاکھ اموات کی وجہ بھی یہی بلڈ پریشر ہے۔ 2008 کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں 25 سال سے زائد کے 40 فیصد افراد بلڈ پریشر کی کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا تھے اور افریقا میں یہ شرح 45 فیصد تک تھی جب کہ امیر ممالک میں یہ شرح 35 فیصد کے لگ بھگ تھی۔
کوئن میری ہسپتال لندن اور کیمبرج یونیورسٹی نے دنیا بھر کے 15 ممالک میں سے 200 ماہرین سے یہ سروے کرایا جس میں ڈنمارک، سویڈن، ناروے، فن لینڈ، ایسٹونیا، امریکا، پاکستان اور بنگلا دیش کے تقریباً ساڑھے 3 لاکھ افراد کا جائزہ لیا گیا۔ ان افراد کو بلڈ پریشر کی بیماری تھی اور ان میں 31 جین سرگرم پائے گئے تھے تاہم بعض صحت مند رضاکار بھی شامل تھے اور کچھ کو ذیابیطس، بلڈ پریشر اور امراضِ قلب لاحق تھا۔
معلوم ہوا ہے کہ بلڈ پریشر والے افراد میں 3 جین کے ڈی این اے میں تبدیلی نوٹ کی گئی تھی۔ ماہرین کے مطابق اس دریافت سے بلڈ پریشر کا مرض قابو کرنے اور نئی دوا بنانے میں بھی مدد ملے گی۔