ٹیکسلا (سردار منیر اختر) ایک وقت تھا کہ آثار قدیمہ سرکپ کو دیکھنے والے سیاحوں کا تانتا بندھا ہوتا تھا چونکہ مین روڈ پہ واقع ہونے کی وجہ سے باقی کھنڈرات کی نسبت دور دراز سے آنے والے سیاح سرکپ کا ہی رخ کرتے تھے۔
مگر اب مناسب سہولیات کے فقدان اور صفائی کی حالت دیکھ کر سیاح گاڑی سے اتر کر ذراآگے آتے ہیں اور واپس گاڑی میں بیٹھ کے چلے جاتے ہیں۔جگہ جگہ اگی خار دار جھاڑیاںتناور درختوں کی شکل اختیار کر رہی ہیں،کھنڈرات کی مرمت کے لیے آنے والی ریت کے راستے میں جگہ جگہ ڈھیر لگے ہیں۔
لیکن ابھی تک چھ ماہ گزرنے کے باوجود یہ ریت جوں کی توں پڑی ہے نہ کھنڈرات میں ڈالی گئی اور نہ ہی اس کو راستے سے اٹھایا گیا ہے،ان آثار قدیمہ کی دیکھ بھال صفائی اور مرمت کے ساتھ ساتھ کھنڈرات کے اندر اگی جھاڑیوں کے لیے آنے والا فنڈ رسمی طور پر ذرا سا کام کروا دیا جاتا ہے باقی کس کی جیب میں جاتا ہے اس سے کسی کو کوئی غرض نہیں ہے۔
ہر سال ان جھاڑیوں کی تھوڑی سی کٹائی کر دی جاتی ہے ان کو مکمل اس لیے نہیں ختم کیا جاتا کہ آنے والے سال میں جھاڑیاں نہیں ہوں گی تو فنڈ بھی نہیں آئے گا جب فنڈ نہیں آئے گا تو جیبیں کیسے بھرئیں گی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارئے ملک کے اندر موجود اس تاریخی ورثے کو پوری دنیا میں پذیرائی ملی ہے جس سے محکمہ عربوں روپے کما رہا ہے لیکن بدقسمتی سے بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے یہ تاریخی ورثہ دن بدن ختم ہونے کے ساتھ ساتھ سیاحوں کے لیے کشش کھو رہا ہے۔
آج بھی جب بارش ہوتی ہے تو بڑی تعداد میں نوادرات کے شوقین سرکپ کے ساتھ موجود کھیتوں سے موتی اور دیگر چیزیں ڈھونڈنے نکلتے ہیں لیکن محکمہ عدم توجہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھدائی نہیں کروا رہا اگر کھدائی کی جائے تو بارش کی وجہ سے کھیتوں سے ملنے والے موتی اس بات کی نشاندہی ہے کہ نیچے نوادرات موجود ہیں۔
سیاحوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت تھوڑی سی توجہ اس تاریخی ورثے کی طرف مبذول کرئے تو کروڑں روپے کا زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔