علی شاہ…………یادیں، باتیں اور ملاقاتیں

Ali Shah

Ali Shah

تحریر : سید مبارک علی شمسی
ماہر تعلیم، نامور شاعر، ادیب صحافی اور کالم نویس محترم علی شاہ صاحب سے میرا تعلق مواصلاتی آلات اور خط و کتابت کے ذریعے بہت دیرینہ یھا مگرعلی شاہ سے باقاعدہ میری پہلی ملاقات ادارہ صدق رنگ پبلی کیشنز ملتان کے ڈائریکٹر راحت امیر خان نیازی، تری خیلوی کے آفس ملتان میں 2007ء میں ان دنوں ہوئی جب میری شاعری کی کتاب ” میں دسمبر اور یہ چاند” ادارہ ہذا میں اشاعت کے مراحل سے گزر رہی تھی ایک دن اسی سلسلے میں راحت امیر خان نیازی کے پاس جانا ہوا تو دفتر میں حاجی نعیم کمپوزنگ میں مگن تھے اور ان کے ساتھ والی نشست پہ خوبروآنکھوں والا درازقد نواجوان براجمان تھا، سفید پوشاک میں ملبوس خوبصورت وبا رعب چہرہ اسکی شخصیت میں ایک سحر پیدا کر رہا تھا اور اسکے چہرے سے معصومیت واضع چھلکتی ہوئی نظر آرہی تھی اور اس نوجوان نے اپنے ہاتھوں میں بہت سارے کاغذات تھام رکھے تھے۔

دفتر میں داخل ہوتے ہی میں نے سب کو سلام پیش کیا اور آگے بڑھ کر راحت امیر خان نیازی سے گلے ملا ، اسی اثنا ء میں راحت امیر خان نیازی نے مجھے اپنی بانہوں کے حصار میں جکڑ کر اس نوجوان کی طرف گھماتے ہوئے کہاکہ یہ مبارک علی شمسی ہیں ۔ راحت امیر خان نیازی کے منہ سے یہ الفاظ سنتے ہی وہ خوبصورت و بارونق چہرے والے، جادوئی شخصیت کے حامل نوجوان علی شاہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور مجھے اپنے گلے سے لگا لیا۔ اسوقت مجھے یوں لگا جیسے پورے عالم کی محبت پیار اوراخلاق آکر مجھ سے سما گیا ہو ، رسمی سلام دعا کے بعد ایک دوسرے کی خیریت دریافت کی اور پھر ہم سب آپس میں گھل مل گئے۔ علی شاہ کی علمی و ادبی گفتگو ، خوبصوت اندازبیاں، شیریں لہجے اور پیار بھری باتوں نے پہلی ملاقات میں بھی اجنبیت کا احساس نہ ہونے دیا۔ اس کے بعد علی شاہ سے ملاقاتوں کا طویل سلسلہ انکی وفات سے چند یوم قبل تک جاری و ساری رہا۔

علی شاہ جب بھی ملتان تشریف لاتے اکثر راحت امیر خان نیازی کے ہاں قیام کرتے۔ مجھے بھی فون کر رکے وہیں بلا لیتے ۔ ادھر روہی ٹی وی سے محمدصفدر اورمحمد اکرم نیازی بھی آجاتے، پھر علی شاہ کے ہمراہ راحت امیر خان نیازی کے دفتر میں خوب محفلیں جمیںاور چائے کے دور چلتے۔اور ہم رات گئے تک دنیا سے بے خبر ہو کر علی شاہ کی علمی و ادبی اور روحانی گفتگو سے محظوظ ہوتے اور انکی سبق آموز باتوں سے استفادہ حاصل کرتے۔ علی شاہ سے میرے تعلقات بہت ہی خوشگوار رہے ہیں۔ علی شاہ ایک سچے ، کھرے، دیانت دار اور اصول پسند قلم کار تھے۔ ان کا یہ خاصہ تھا کہ وہ بڑوں کا احترام کرتے تھے اور چھوٹوں سے شفقت سے پیش آتے تھے اور مجھے اپنا چھوٹا بھائی تسلیم کرتے تھے انکا مجھ پر قرض تھا جو ادا ہوا ۔ علی شاہ کو خڑاج تحسین پیش کرنے کے لیئے اپنا ایک شعر پیش کرتا ہوں ملاحظہ کیجئے۔

شفق کہوں شفیق کہوں کہ تجھے کیاکہوں علی شاہ
القاب کے پیچ و خم میں حیراں ہے زباں میری
علی شاہ کو اللہ رب العزت نے بے شمار صلاحیتوں سے

سرفراز کر رکھا تھا وہ لفظوں کی چھا گل لیکر ادب کی آبیاری میں مصروف رہے اور انہوں نے اپنی پوری زندگی ادب کی خدمت میں گزار دی وہ بیک وقت شاعر، ادیب، افسانہ نگار، کالم نگار اور سنیئر صحافی تھے۔ پی ٹی وی ہوم (ملتان سنٹر)، وسیب ٹی وی، روہی ٹی وی اور چینل فائیو سمیت مختلف ٹی وی چینلز نے انکے خصوصی انٹرویوز نشر کیئے ۔نعتیہ مشاعرہ ہو یا محفلِ مسالمہ ، عید ملن مشاعرہ ہو یا قومی و مذہبی تہواروں کی خصوصی نشریات ہمیں اکثر علی شاہ ٹی وی کی سکرین پر بھی نظر آتے تھے۔

Ali Shah

Ali Shah

علی شاہ بہت ہی اچھے کالم نویس(Collumist) بھی تھے۔” دھرتی کے رنگ” انکا مستقل عنوان تھا۔ اسی عنوان کی مناسبت سے انہوں نے اپنی دھرتی کے مختلف رنگوں کو اپنی تحریروں میں نہایت ہی خوبصورت انداز میں اجاگر کیا ہے اور اپنے کالموں کے ذریعے انہوں نے اپنے علاقہ شعر و نغمہ کی سرزمین میانوالی اور تھل کے مسائل بھی بیان کیئے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف اپنے وسیب کی محرومیوں کی جانب ارباب اختیار (حکمرانوں ) کی توجہ مبذول کروائی ہے بلکہ بین الااقوامی ایشوز پر بھی قلم کشائی کی ہے۔ ” دھرتی کے رنگ” کے عنوان سے انکے کالموں کی جامع کتاب بھی منظر عام پر آچکی ہے ۔ علی شاہ نے مختلف ادبی رسائل وجرائد کے مدیران سے خوب دوستی نبھائی اور انکی توقعات سے بڑھ کر قلمی معاونت و رہنمائی کرتے رہے اور متعدد رسالوں کی مجلس ادارت کا حصہ بھی رہے ۔ انکی تحریریں برصغیر (پاک و ہند) کے معیاری ادبی رسائل و جرائد میں تواتر کے ساتھ شائع ہوتی رہی ہیں۔

علی شاہ نے تخلیقی و تنقیدی کام کے ساتھ ساتھ بہت سارا تحقیقی کام بھی سرانجام دیاہے جو ان کے شعری انتخاب ” منکیرہ کا ادبی منظر نامہ” میں واضع نظر آئیگا جسمیں انہوں نے کہنہ مشق شعراء اور شاعرات کے کلام کے علاوہ نو آموز شعراء کو شامل کر کے نہ صرف انکی حوصلہ افزائی کی ہے بلکہ قدیمی شاعروں کا کلام اور ان کے حالات زندگی بھی قلم بند کئے ہیں جو گم نامی یا پردہ نشینی کی حالت میں اس جہان فانی سے وارد ہو گئے ۔ انکے ایسے لازوال شعری مرتبے انکی ادبی وابستگیوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ اسی طرح ” ونگ داوین” علی شاہ کا شاہکار شعری انتخاب(مرتبہ) ہے۔ جسمیں علی شاہ نے ونگ کو استعارے کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ زمانہ قدیم سے ہی ونگ کو ہمارے وسیب کی ثقافت کا اہم حصہ سمجھا جاتا ہے، اسے عورتیں زیور کے طور پر استعمال کرتی ہیں اور خواتین خوشی کے موقوں پر اپنی کلائیوں میں رنگ برنگی چوڑیاں پہن کر خوشی محسوس کرتی ہیں سرائیکی کے صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید سمیت دیگر صوفی شعراء نے اپنے کلام میں اپنے اپنے انداز سے ونگ کا تذکرہ کیا ہے۔ مگر جدیدیت کے دور میں ہماری یہ پرانی روایت دم توڑ تی جا رہی ہے ۔ علی شاہ نے اپنی اس منفرد تخلیق کے ذریعے اس دم توڑتی ہوئی روایت میں نئی روح پھونکنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ علی شاہ کی تخلیقات میں” اجلے رنگ محبت کے” (شعری مجموعہ)، ” ماں میں اکیلا ہوں” (مضامین)، ” جدائی امتحان ہے” (مرتبہ)،” نیکوں ملن ڈی سک” (سرائیکی انتخاب ) ، ” ثناء سبط رسولۖ” (کربلائی شاعری)اوربھکر میں صحافت کا ارتقاء شامل ہیں۔

Ali Shah

Ali Shah

علی شاہ جاگیردار اور صاحب جائیداد تھے۔ زردار ہونے کے باجود بھی انہوں نے کبھی تکبر نہیں کیا ، انہوں نے اپنی ساری زندگی عاجزی، انکساری کیساتھ گزاردی۔ انکا طرز زندگی بہت سادہ تھا۔ وہ غریبوں سے پیار کرتے تھے اور انکے مسائل غور سے سنتے اور انکے حل کے لیئے اپنی تمام توانائیاں بروئے کار لاتے اور نہیں سپورٹ کرتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ غریبوں کی محرومیوں کی جھلک ان کے کالم میں واضع نظر آتی ہے ملاحظہ کیجئے:۔

بیوہ ماں کے زیور بیچ کے بی اے کرنے والا لڑکا
چھوٹے سے اسکول کے آگے برف کے گولے بیچ رہا ہے

یہ بھی اک فنکار ہے شہر میں گھر گھر جا کر جو
بھوک کے ہاتھوں اپنے گانے بیچ رہا ہے

علی شاہ نے 1 فروری 1966 ء کو سید اعجاز حسین شاہ کے گھر میں اآنکھ کھولی ، انکا آبائی گائوں میانولی ڈسٹرکٹ میں ہے جسکا نام ڈھیر امیدعلی شاہ ہے جو کہ علی شاہ کے خاندانی نام سے منسوب ہے۔ علی شاہ کو سرزمین بھکر اور میانوانی سے دلی محبت تھی۔ علی شاہ ابھی گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان سے پی ایچ ڈی کر رہے تھے کہ اچانک زندگی کی ڈوری ٹوٹ گئی اور 14 جون 2016 ء کو طویل علالت کے بعدا دبی وعلمی محفلوں کو اپنے پرتاثیر کلام اور اپنی جادوئی آواز سے کشتِ زعفرانی بنانیوالے علی شاہ اپنے عزیزوں ، دوستوں اور پیاروں کو روتا ہوا چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔(قالواناللہ و انالیہ راجعون)علی شاہ سے زندگی بے وفائی کر گئی ورنہ ان کے فہم و فراست میں علم و آگہی کا ایک وسیع خزانہ موجود تھا۔ وہ بستر پر بھی سوچوں کے بادبان باندھ کر ادب کے سمندر میں غوطہ زن رہتے اور نئے موضوعات چنتے ، علی شاہ کی وفات اردوا دب کے لیئے بہت بڑا سانحہ ہے ۔ انکی وفات سے اردو ادب کا ایک باب ختم ہو گیا ہے۔ جب بھی بھکر اور میانوالی کا اکوئی مورخ اردو ادب کی تاریخ مرتب کریگا تو علی شاہ کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا ۔ علی شاہ اپنی تحریروں کے ذریعے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ میرے موبائل میں علی شاہ کا نمبر اب بھی محفوظ ہے۔ مگر اب کبھی انکی کال نہیں آئیگی اور نہ میں ان کے کہنے پر ملتان جایا کروں گا۔ اللہ پاک علی شاہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کریں ۔(آمین)

آئیں علی شاہ ے چند اشعار مل کر پرھیں:۔
میرا دشمن جہاں چاہے مجھے للکار سکتا ہے
میرا ے چاروں طرف ماں کی دعائیں رقص کرتی ہیں

تمہاری دلنشیں یادیں یہیں رہ جائیں گی لیکن
ہمارے پیار کی خوشبو تمہارے ساتھ جائیگی

مرنے کے بعد جانے کیا حشر ہو علی شاہ
گزری ہے زندگی تو عذابوں کے شہر میں

باغ کو دیکھ مچا دیتے ہیں اکثر دھوم پرندے
طوفانوں کا کیسے سمجھیں گے مفہوم پرندے

بخت ڈھلے تو رہ جاتی ہیں گزرے وقت کی یادیں
جب ہر لب پر ہی ہوتا تھا ایک ہی نام علی شاہ

Syed Mubarak Ali Shamsi

Syed Mubarak Ali Shamsi

تحریر : سید مبارک علی شمسی
mubarakshamsi@gmail.com