تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی میں اپنی زندگی کے قیمتی ترین لمحات سے گزر رہا تھا بلا شبہ گزرنے والا ہر لمحہ جنت سے بھی بڑھ کر تھا وہ اِس لیے کہ میں سرور کا ئنات ۖ سردار الانبیا ء ۖ کے روضہ رسول ۖ کے سامنے کھڑا تھا میں یہاں تک آتو گیا تھا لیکن میںا بھی بے یقینی کی کیفیت میں تھا، مجھے ابھی بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ میں وجہ تخلیق کا ئنات محبوب خدا ۖ نسل انسانی کے سب سے بڑے انسان جن کے اُمتی ہو نے کی دعائیں پیغمبروں نے کیں ، مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں شہنشاہ ِ دوعالم ۖ کے دربار تک آگیا ہوں کیونکہ میرے جیسا خطا کار روسیا یہاں آنے کی آرزو تو کرسکتا ہے حقیقت میں یہاں آنا، خود پر یقین نہیں آرہا تھا کیونکہ یہی وہ دربار ہے جس کی شان آسمانوں کی بلندیوں اور عرش سے بھی زیادہ ہے یہی وہ جگہ جہاں بڑے سے بڑے بادشاہ طاقتور اور ولی کی بھی سانسیں تھم جا تی ہیں جہاں زبان گونگی اور پلکوں سے دستک دی جا تی ہے یہاں پر ممتا بھری آسودگی آپ کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے ، یہاں پر ہی ممتا بھری نورانی معطر شبنمی پھوار آپ کے دل و دماغ کی ویران اُجڑی ہو ئی کھیتیوں کو شاداب کر تی چلی جا تی ہے ، جسے زخموں سے چور جسم و روح پر مرہم رکھا جا رہا ہو۔
جیسے مر ض الموت میں مبتلا مریض کو موت کی وادی سے واپس بلا لیا گیا ہو، کسی نے اچانک گر تے گرتے آپ کو اپنی پر سکون نرم و گداز آغوش میں سمیٹ لیا ہو، جیسے کو ئی آپ کے سر پر شفقت بھری لو ری دے رہا ہو یہیں پر اجڑے ہو ئے چمن میں اچانک بہا ر کی آمد کا احساس ہو تا ہے، یہی پر لا علاج مریضوں کو سالوں بعد صحت سے دوچار کر دیا جا تا ہے، سالوں کی بے خوا بیوں میں مبتلا پیا سی آنکھوں کو آسودگی سے ہمکنار کر دیا جا تا ہے، یہاں پر ہی جب محسن ِ انسانیت ۖ بے آسروں کے آسرے شافع دو جہاں ۖ زخموں سے چور مسافر کو اپنی ممتا بھری آغوش میں لیتے ہیں تو آنے والے مسا فر کے آنسو ہو تے ہیں ہچکیاں سسکیاں اور آنسوئوں کے نذرانے ، یہاں پر ہی جب سنہری جالیوں سے کیف انگیز خو شبو بھرے ممتا بھرے نرم و نازک ہو ا کے جھو نکے آکر عشاقِ رسول ۖ سے ٹکراتے ہیں تو آنے والے پردیسیوں کی زبانوں سے شکرانے کے درود و سلام کے معطر جھرنے پھوٹ پڑتے ہیں ، اِن معطر جھرنوں کی مہک سے دل و دماغ اور روح کے نہاں خا نے معطر و منور ہو جا تے ہیں ایک لمحے میں سالوں کی کثافتیں لطافتوں میں ڈھل جا تی ہیں یہیں پر ہی انسان کا نیا جنم ہوتاہے۔
یہاں انسان کتنی دیر حاضری دیتا ہے یہ تو قابلِ غور نہیں ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اِن لمحوں کو زندگا نی کا حاصل ضرور سمجھا جا تا ہے یہاں پر احترام کا مقام یہ ہے کہ امام ما لک جیسے عظیم الشان استاد نے یہاں بیس سال گنبدِ خضرا کی چھا ئوں تلے بیٹھ کر درس حدیث دیا احترام یہ تھا کہ کتاب کا ورق بھی اِس آرام اور آہستگی سے پلٹتے تھے کہ کا غذ کی آواز اتنی اونچی نہ ہو جا ئے کہ سرور دو جہاں ۖ کے آرام میں خلل واقع ہو جا ئے ایسے اہل حق جن کی زندگی کا ہر لمحہ عبودیت میں گذرا ہو جن کی شان اور عبا دت پر ملا ئکہ بھی رشک کر تے ہوں وہ بھی گنا ہ گاروں کی طرح سر جھکا ئے در رسا لت ۖ پر آکر کھڑے ہو ئے ۔ میں بھی دربار رسالت ۖ پر کھڑا ضرور تھا لیکن سب ایک سہا نا خوا ب لگ رہا تھا کہ ابھی آنکھ کھل جا ئے گی اور منظر تبدیل ہو جا ئے گا مجھے اپنے وجود اور اپنی حاضری پر یقین نہیں آرہا تھا ۔ میں گم سم کھڑا تھا ایک سکتے کا عالم طا ری تھا نہ اپنی خبر نہ گردوپیش کی اونچی آواز میں رو بھی نہیں رہا تھا اور نہ ہی آواز یا صدا لگا رہا تھا کہ کہیں آواز اتنی بلند نہ ہو جا ئے کہ گستا خوں میں شامل ہو جائوں ۔ میں اہل مدینہ کی قسمت پر رشک کررہا تھا اور عرب کی شان جو آپ ۖ کے آنے کے بعد ملی ورنہ ہزاروں میلوں دور سے کو ن یہاں صحرائوں کی خا ک چھا ننے آتا، سرور دو جہاں ۖ کے نعلین پاک نے مدینہ کو عرش سے بھی عظیم مقام عطا کر دیا ۔ میں بھی اپنے جسم کی ساری طاقتیں اکٹھی کر کے یہاں تک پہنچا تھا مجھے کچھ بھی یا د نہیں تھا۔
Prayer
میں خود کو اور اپنے اہل و عیال کو پوری طرح بھو ل چکا تھا اپنی ذات سے بھی بے خبر سنگی مجسمہ بنا کھڑا تھا میرے اعصاب اور یا دداشت میری گرفت میں نہیں تھے میری جنم جنم کی پیا سی نظریں جالیوں پر جمی ہو ئی تھیں اور میرا فالجی جسم بید مجنوں کی طرح لرزنا شروع کر دیتا پو ری کو شش کے با وجود بھی میری زبان سے الفاظ نہیں نکل رہے تھے میں بو لنے کی کو شش کر تا لیکن بے جان ہو نٹ لرزنے کے بعد شل ہو جا تے، زبان گنگ ، دعائیں پتہ نہیں کب کی ہوا میں تہلیل ہو چکیں تھیں میرا شعور لا شعور صاف ہو چکے تھے رشتہ داروں دوستوں کے سلاموں پیغاموں اور دعائوں والی پوٹلی پتہ نہیں کہاں گر گئی تھی رحمت دو عالم ۖ کے عشاق دنیا کے چپے چپے سے دیوانہ وار روضہ رسول ۖ پر آئے ہو ئے تھے یہ عشاق پروانوں کی طرح روضہ رسول ۖ پر منڈلا رہے تھے کچھ پروانوں نے دعا ئوں کے لیے اپنے ہا تھ پھیلا ئے ہو ئے تھے کچھ سسکیاں ہچکیاں لے رہے تھے روضہ رسول ۖ کی جالیوں سے آتے ہو ئے معطرہو ا کے جھونکے انہیں ممتا بھری تھپکیاں دے رہے تھے دنیا جہاں کے عالم فاضل جب یہاں آتے ہیں تو اُن کی زبا نیں گنگ ہو جا تی ہیں الفاظ ہوا میں تحلیل ہو جا تے ہیں شعور کی تختیاں کو ری ہو جا تی ہیں میں جا لیوں کے سامنے کھڑا تھا آقا ئے دو جہاں ۖ کی شفقت کی ٹھنڈی پھوار مو تیوں کی طرح ، گلاب کی پتیوں کی طرح مجھ پر برس رہی تھی مجھے لگ رہا تھا سنہری جا لیوں سے آتے ہو ئے معطر ہوا کے جھونکوں نے نورانی حلقے کی طرح مجھے اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے۔
کبھی تو میں بلکل گنگ ہو جا تا اور پھر اچانک میرے با طن کے نہاں خانوں سے نو ر کی ایک لہر سی اٹھتی میرے با طن میں ہر طرف نور کے پھوار پھوٹ پڑتے اور میرے ہونٹوں سے درود و سلام کی نغمگی پھوٹنے لگتی میں جو شدید خو ف میں جکڑا ہوا یہاں آیا تھا اچانک مجھے لگا جالیوں کے اندر سے شفقت بھرا ہوا کا جھونکا آیا اور میرے سارے خوف دور ہو گئے ساری اجنبیت جھجک اور دوریا ں ختم ہو گئیں مجھے لگ رہا تھا جیسے سالوں کی لمبی تکلیف دہ قید کے بعد میں اپنے حقیقی گھر میں آیا ہوں آگ برساتے صحرائوںپر ننگے پا ئوں سیکڑوں میل کا سفر کر نے کے بعد ریشمی نرم و گداز گھا س اور ٹھنڈے سایہ دار درختوں سے بھرے نخلستان میں آگیا ہو جیسے زندگی کی تلخ کڑوی حقیقتوں کو جھیلتے جھیلتے آغوش ما در کی نرم و گداز بانہوں میں آگیا ہوںمیں تصویر تشکر اور عجز بنا کھڑا تھا بلا شبہ میں نبی رحمت ۖ کے دربار میں کھڑا تھا وہ عظیم انسان جنہوں نے جہالت اور ظلم میں غرق انسانیت کو حیاتِ نو (نئی زندگی) سے ہمکنار کیا وہ عظیم انسان جنہوں نے گالیاں دینے والوں کو دعائیں دیں خون کے پیاسوں کو فبائیں دیں ۔ سنہری جا لیوں سے آتی ہو ئی معطر ہوا ئوں میں میرا پورا وجود مہک رہا تھا آج یہاں مجھے اِس شعر کا مفہوم سمجھ آرہا تھا ۔ ادب گا ہست زیر آسمان ازعرش نا زک تر نفس گم کردہ می آید جنید و با یزید ایں جا
Roza e Rasool SAW
روضہ رسول ۖ کے سامنے گزرنے والا ہر لمحہ یقینا جنت سے بڑھ کر ہے یہاں پر آنیوالا جس با طنی کیفیت سرشاری سے گزرتا ہے اُس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا یہاں پر آکر بڑے بڑے موم کی طرح پگھلتے نظر آتے ہیں مشتِ خاک طرح غبار میں تہلیل ہو ئے نظر آتے ہیں انسانی جسم و دماغ شعور لا شعور اور کیفیت انگیز ایسی کیفیات اور تبدیلیاں کہ سانس کا کو ئی بھی پیما نہ یا علم اِ ن کو گرفت میں نہیں لا سکتا ۔ عقل و شعور انگلی دانتوں تلے دبے محو حیرت کھڑے نظر آتے ہیں آج تک کو ئی بھی اِ س راز کو نہیں پا سکا انسانی خمیر میں ودیعت کی ہو ئی عشقِ رسول ۖ کی کر نیں کس طرح سینکڑوں سورجوں کی مانند با طن کو روشن و منور کر دیتی ہیں کس طرح سخت سے سخت اور ظالم سے ظالم پتھر دل انسان بھی جب ساقی کو ثر ۖ کے در پر آتا ہے تو اُس کی آنکھیں ساون بھادوں کی طرح بر سنے لگتی ہیں اور وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو نے لگتا ہے گر یہ زاری اور آنسوئوں کے آبشار کسی اور مقام پر اِس طرح ابلتے نہیں دیکھے گئے ، انسان پروانوں کی طرح کسی بھی مقام پر اِس طرح جان ہتھیلی پر سجا ئے منڈلا تے نہیں دیکھے گئے۔
میں نشے سرور تشکر اور ندامت کی حالت میں غرق تھا آہستہ آہستہ میرے اعصاب بحال ہو نے شروع ہو ئے تو مجھے پا کستان سے آتے ہو ئے بہت سارے لوگوں کے سلام اور عرضیاں یا د آنے لگیں اور پھر وہ ساری عرضیاں اور دعائیں میرے رخساروں پر ڈھلکنے لگیں اور میں سوچنے لگا کیا آقا ئے دو جہاں ۖ کو عرضیوں کی ضرورت ہے، کیا یہاں جھولی پھیلانے کی ضرورت ہے، کیا یہاں دعا مانگنے کی ضرورت ہے ، کیا یہاں الفاظ کی ادائیگی کی ضرورت ہے، کیا یہاں دعائوں کی لمبی چوڑی عبا رتیں باآواز بلند پڑھنے کی ضرورت ہے ، تو اچانک جالیوں سے ہوا کا معطر جھونکا آیا اور میرے کا ن میں سرگو شی کر نے لگا یہ وہ در ہے جہاں بن مانگے سب کچھ ملتا ہے اِس احساس کے ساتھ ہی میرا انگ انگ کشکول بن گیا اور میں سرا پا سوالی اور پھر سنہری جالیوں سے آتی ہو ئی شفقت بھری پھوار میرے اوپر موتیوں کی طرح برسنے لگی۔
Professor Mohammad Abdullah Bhatti
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org