شام (جیوڈیسک) شامی فوج کی جانب سے ایک ہفتے سے جاری جنگ بندی کے خاتمے کے اعلان کے فوراً بعد ہی حلب میں ایک امدادی قافلے پر فضائی حملہ کیا گیا ہے۔
شامی ریڈ کریسٹ کا قافلہ اورم الکبریٰ کے علاقے میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے امداد لے کر جا رہا تھا۔ حملے میں متعدد امدادی کارکن ہلاک اور زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
امدادی قافلہ حلب میں باغیوں کے زیرِ قبضہ دیہی علاقوں میں جا رہا تھا۔ ایک غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق حملے میں 12 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ 18 سے 31 امدادی ٹرکوں کو نشانہ بنایا گیا تاہم انھوں نے یہ تصدیق نہیں کی کہ یہ فضائی حملہ تھا۔
شام کے لیے اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے سٹیفن ڈی مستورہ کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی ظلم ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو بھجوائی گئی ایک ای میل میں ان کا کہنا تھا ’یہ امدادی قافلہ ایک طویل عمل کے نتیجے میں جا رہا تھا، اس کے ذریعے علاقے میں محصور آبادی کو امداد پہنچانے کی اجازت لی گئی تھی اور اس کے لیے تیاریاں کی گئی تھیں۔‘
اطلاعات کے مطابق شامی فوج اور باغی ایک دوسرے پر سات روز قبل شروع ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔
امریکہ جس نے روس کے ساتھ مل کر جنگ بندی کا یہ معاہدہ کیا تھا، نے کہا ہے کہ وہ اس معاہدے میں توسیع کے لیے کام کر رہا تھا مگر اب امریکہ نے روس سے کہا ہے کہ وہ شام کی جانب سے آنے والے بیان کی وضاحت کرے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے ’ہمارا انتظام روس کے ساتھ ہے جو کہ شامی حکومت کی فرمانبرداری کا ذمہ دار ہے، ہم روس سے وضاحت کی توقع کرتے ہیں۔‘
امریکہ کا کہنا ہے کہ روس اور امریکہ نے شام کی صورت حال پر منگل کو مزید بات چیت کرنی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے نامہ نگار نے کہا ہے کہ فضائی حملوں اور شیلنگ کے ذریعے سوکاری اور امریریا نامی دو مشرقی اضلاع کو نشانہ بنایا گیا۔
حکومت کی حمایت سے کیے جانے والے ان فضائی حملوں میں حمص، ہما اور ادلب کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ خیال رہے کہ اس سے قبل شامی فوج نے کہا تھا کہ اس کے سات روزہ’خاموش حکومت‘ کی مدت پوری ہو گئی ہے۔
باغی گروہ جسے شامی فوج نے دہشت گرد کہہ کر پکارا تھا کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ وہ معاہدے کی کسی بھی شق پر عمل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ادھر امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے شام کی جانب سے جنگ بندی کے خاتمے کے اعلان پر تنقید کی اور کہا ’یہ اچھا ہوتا اگر وہ اس میں پہل نہ کرتے۔‘
روسی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل سرگئی ردسکوئی نے کہا تھا کہ باغیوں کی جانب سے فائر بندی کا احترام نہیں کیا جا رہا، ہم شامی فوج کی جانب سے اس کے یکطرفہ احترام کو بے معنی سمجھتے ہیں۔‘
اس جنگ بندی میں محصور شامیوں تک امداد پہنچانا بھی شامل تھا تاہم پیر تک بہت سی امداد ابھی متاثرہ علاقوں تک پہنچنی باقی تھی۔
باغیوں کے زیرِ قبضہ مشرقی حلب جہاں دو لاکھ 75 ہزار افراد پھنسے ہوئے ہیں میں 20 امدادی گاڑیوں کو پہنچنا تھا۔ ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ حمص کے ایک دیہات میں کچھ امداد پیر کو پہنچائی گئی تھی۔