قدیم سے لامذہب سیاست کے تین اصول رہے ہیں جو مشرق اور مغرب میں مشترک ہیں، یہ نہیں کیا جاسکتا کہ یہ کل کے ہیں یا آج کے بلکہ ہمیشہ سے ہی یہ اصول چلے آرہے ہیں یعنی سیاست اگر لا مذہب اور بے دین ہو تو اس کا پہلا اصول یہ ہے کہ قوم وطن یا گروہ کا مفاد جب بھی عدل سے ٹکرائے گا تو اپنے مفاد کو عدل پر لازما ترجیح دی جائے گی خواہ اس کے نتیجہ میں عدل و انصاف کا خون ہی کیوں نہ ہو جائے۔ یا عدل و انصاف کو پارہ پارہ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ جبکہ قرآن کریم کا اصول سیاست اس کے بالکل برعکس ہے اور وہ یہ ہے کہ۔ اے مسلمانو! تمہاری سیاست اور طرح کی ہے یہ فرمان الہی کے تابع ہے اس کا بنیادی اور اٹل اصول یہ ہے کہ کسی قوم کی شدید دشمنی بھی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ اس سے نا انصافی کا سلوک کرو۔ ہمیشہ عدل پر قائم رہو کیونکہ عدل تقوی کے قریب تر ہے۔
بے دین سیاست کا دوسرا اصول یہ ہے کہ اگر طاقت ہو تو مفادات کو طاقت کے زور سے ضرور حاصل کرو۔ کیونکہ’Might is Right ” طاقت ہی صداقت ہے اور اس کے سوا دنیا میں صداقت کی اور کوئی تعریف نہیں۔ قرآن کریم اس کے برعکس ایک دوسرا اصول پیش فرماتا ہے جو یہ ہے : یعنی وہی ہلاک کیا جائے جس کی ہلاکت پر کھلی کھلی صداقت گواہ ہو اور وہی زندہ رکھا جائے جس کے حق میں کھلی کھلی صداقت گواہی دے۔ پس اسلام کا اصول Might isRight کے بالکل برعکس Right is Might بنتا ہے تیسرا اصول جو لا دین سیاست کا بنیادی حصہ ہے یہ ہے کہ مقصد کے حصول کے لئے بے دریغ جھوٹا پروپیگنڈہ کیا جائے، یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ جتنا زیادہ فریب اور ملمہ کاری سے کام لیا جائے اتنا ہی زیادہ بہتر اور قوم کے مفاد میں ہے پس دشمن کو صرف میدان جنگ میں ہی شکست نہ دی جائے بلکہ جھوٹے پروپیگنڈے کے زریعے اس کو نظریات اور اصولوں کی دنیا میں بھی شکست خوردہ بنا کے رکھ دیا جائے۔
Dr. Aafia Siddiqui
پس آجکل کی سیاست کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ ہی تین اصول کارفرما نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ملالہ کو استعماری طاقتیں اور پاکستان کے حکمران اپنی سیاست کو چمکانے اور اپنے تخت کو قائم رکھنے کے لئے استعمال کر رہی ہیں۔ اس معاملے میں کچھ صحافی حضرات بھی پیش پیش ہیں جن کا روزانہ کا موضوع سخن ہی ملالہ ہے۔ ان کے نزدیک ملالہ کو اسلام اور پاکستان سے شدید قسم کا خطرہ ہے۔ اسی طرح دن رات میڈیا کو یہودی لابی یا ان کا ایجنٹ کہتے ہیں اور پھر اسی دجالی میڈیا پر اپنے پر مغز تبصرے دینے کے لئے حاضر ہو جاتے ہیں۔ اب تو ایسا ہی لگتا ہے کہ جیسے حکومت، میڈیا اوربظاہر پاکستان اور اسلام کا درد رکھنے والے کچھ صحافی جھوٹا پروپیگنڈہ کر کے عوامی مسائل سے جان چھڑانے کے لئے ان دونوں کے معاملے میں الجھائے رکھنا چاہتے ہیں۔
ان کے نزدیک عوام کے دیگر تمام بنیادی مسائل کا خاتمہ ہو چکا ہے اور اب اسلام اور پاکستان کے نظریات کو بچانے کی باری ہے۔ اس لئے یہ ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ ایک آزاد ہے اور ایک قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کر رہی ہیں۔ کیا ہماری حکومت اس قدر بے بس لاچار اور مجبور ہے کہ ان دونوں معاملات کے حل کے لئے کوئی عملی قدم اٹھانے سے قاصر ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی میں کون سی رکاوٹیں حائل ہیں۔ بالفرض اگر انہوں نے کوئی جرم کیا بھی ہے تو ان کو پاکستان میں لاکر یہاں کی جیل میں بھی رکھا جاسکتا ہے۔ اور یہاں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ مگر پاکستان نہ تو امریکہ ہے اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی نہ ہی ریمنڈ ڈیوس ہیں۔ جو دن دہاڑے معصوم پاکستانیوں کو قتل کرنے کے بعد بھی اپنے ملک با آسانی چلا جاتا ہے۔