تحریر : رشید احمد نعیم آج ایک ایسا مراسلہ موصول ہوا جسے پڑھنے کے بعد اپنے آپ پر شرمندگی محسوس ہونے لگی کہ ہم حقیقت میں کتنے بے حس ہو گئے ہیں۔مراسلہ کیا ہے ؟ ایک طمانچہ ہے ہمارے چہرے پر کہ ہم انسانی حقوق کی بات کتنے فخر سے کرتے ہیں مگر عملاً ہم بے حسی کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ ہم صرف گفتار کے غازی ہیں کردار کے نہیں۔شیخوپورہ سے محترمہ ایمن ہاشمی صاھبہ کے ملنے والے مراسلے سے پہلے کسی تمہیدی الفاظ و خیالات کی ضرورت نہیں۔ ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے مراسلے کے الفاظ ہی کافی ہیں مگر شرط صرف اتنی ہے کہ ضمیر تھوڑا بہت زندہ ہو ۔ ایمن ہاشمی صاحبہ لکھتی ہیں” مکرمی و محترمی رشید احمد نعیم صاحب! اسلام علیکم گزشتہ دنوں بچیوں (بیٹیوں ) کا عالمی دن منایا گیا جس پر آپ کے مضمون سمیت بہت سے کالمز اور مکالے شائع ہوئے ۔بلا شبہ آپ سب نے اس دن پر خاصی تفصیل سے بحث کی مگر افسوس کہ جو بات میں نے ڈھونڈنی چاہی وہ مجھے مل نہیں پائی۔ بیٹیوں کے اس عالمی دن پر اپنی بیٹیوں کی عصمت و سلامتی کی دعائیں تو سبھی ماں باپ نے دی ہونگی دینی بھی چائیں۔ بیٹی ہستی ہی ایسی ہے جو کبھی بہن ،کبھی بیٹی ،کبھی بیوی ،اور کبھی ماں کے روپ میں کائنات میں رنگ بھرتی ہے ۔کائنات کے تسلسل کی بہت ہی اہم کڑی ہے جسے ہم بیٹی کہتے ہیں۔ بیٹی تو وہ ہستی ہے کہ جس کے احترام میں خود امام الانبیاء ۖاٹھ کر کھڑے ہو جایا کرتے تھے ۔بلا شبہ آنحضرت ۖ کی ذات مبارکہ ہی وہ مجسم نمونہ ہیں کہ جن کی پیروی کر کے ہم اپنی دنیا اور آخرت سنوار سکتے ہیں۔
یہاں ایک بات کا ذکر کرنا چاہوں گی کہ جو اس مخصوص دن پر مجھے دل کے کسی خاص گوشے پر چبھی وہ یہ کہ آپ ۖ کی ذات تو وہ تھی جو کسی جانور پر ظلم ہوتا دیکھ کر یا اسے قید میں دیکھ کر رات بھر سو نہ سکتے اور صبح جب تک اسے آزاد نہ کروا لیا چین نہ لے پائے ۔مگر تف ہے ہم جیسے مردہ ضمیر لوگوں پر کہ اس عالمی دن پر بھی اس بیٹی کا ایک پل کے لئے بھی خیال نہیں آیا جو آٹھ سال سے ناجانے کتنی بار جیتی ہے ،کتنی بار مرتی ہے ،مردانہ جیل میں قید وہ بیٹی ذہنی ، جسمانی اور جنسی زیادتیاں سہتی سہتی اپنی یاد داشت کھو بیٹھی ہے ۔وہ جیل کے اس گوشے میں قید ہے جہاں زندگی اس سے کوسوں دور ہے اور موت بھی اس کے پاس جانے سے ڈرتی ہے ۔ایک سو چوالس ڈگریوں کی حامل وہ بیٹی کسی راہنمائے قوم کو یاد نہیں ،اس کے نام پر سیاسی دوکانداری چمکا کے ایوان اقتدار میں پہنچ جانے والے کیوں اسے فراموش کر بیٹھے ہیں ؟بنت حوا ہونے کے ناطے اگر وہ مسلمان نہ بھی ہوتی تو بھی مجھے یوں ہی اس کا درد اپنے وجود اور اپنی روح پر محسوس ہوتا ۔جس دن سے اس کی یادداشت کھو جانے کی خبر سنی ہے اس دن سے میرا ضمیر مجھے جھنجھوڑ رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ وہاں عافیہ نہیں بلکہ میں دشمن کی قید میں ہوں اور یہ تمام مظالم سہتے سہتے تھک چکی ہوں ۔جب ساری دنیا بچیوں (بیٹیوں ) کا عالمی دن منا رہی تھی تو مجھے لگتا ہے کہ میری بربادی کا جشن منایا جا رہا ہے ۔میرے مطابق میری قوم کی ہر بیٹی خواہ وہ مریم نواز ہو یا کسی خاکروب کی گڈیا دونوں عزت و احترام کے قابل ہیں پھر حکمرانوں کی سوچ میں اتنا تفاوت کیوں ؟جہاں ملالہ یوسف زئی کو نوبل انعام ملنے پر پورے ملک میں خوشیاں منائی گئیں۔
خادم اعلی پنجاب نے ملالہ کے نام پر یونیورسٹی بنانے کا اعلان کر دیا تھا۔ جس نے تعلیم کے لئے کام کیا اس کے نام پر یونیورسٹی بنوانا بلا شبہ ایک مستحسن اعلان تھا ملالہ کی کامیابی یقینی طور پر میرے وطن کی کامیابی ہے مگر یہ نہ بھولیں کہ وہی انگریز آپ کی ایک بیٹی کو تو نوبل انعام دیں اور دوسری بیٹی کو وہ دو پل آرام بھی نہ دیں۔تعلیم پر کام کرنے والی کے نام پر یونیورسٹی اور دنیا بھر کی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل بیٹی پابند سلاسل جس بیٹی کے پائے کا تعلیم یافتہ امریکہ بھر میں کوئی نہیں اس بیٹی کی قید پر ہماری مجرمانہ خاموشی سمجھ سے بالا تر ہے ۔نہ جانے مسلمان مائوں نے اب محمد بن قاسم پیدا کرنے کیوں چھوڑ دیئے ہیں جو عرب سے کسی مظلوم عورت کی فریاد پر اسکی عزت کا محافظ بن کر چلا آئے۔
Shahbaz Sharif
اقتدار میں آنے سے پہلے تو سبھی نے وعدے کئے کہ ہم عافیہ کو لائیں گے ، عافیہ کو بچائیں گے ۔ مگر معذرت سے کہتی ہوں کہ اب زندگی کو اس کی ضرورت یا شائد امید نہیں رہی اب تو یہی گزارش ہے کہ کوئی ہمت کرے جا کر اسے زہر دے آئے کیونکہ اب اسے جھوٹے وعدوں سے زیادہ اسی کی ہی ضرورت ہے۔ اگر دھرتی ہماری ماں ہے تو اس دھرتی کے جائے بھی بہن بھائی بیٹیاں اور مائیں ہیں کبھی دیکھا ہے کہ کسی باپ کی بیٹی قید میں ہو اور وہ چین کی نیند سو جائے۔ نہیں نا ؟ حاکم وقت قوم کی بیٹیوں کے لئے باپ کا درجہ رکھتا ہے تو پھر کیوں موصوف کے ذہن سے وہ بیٹی نکل گئی ؟ کیا وہ ہماری بیٹی نہیں ؟ یا پھر ہم ہی اس پاک دھرتی کے جائے نہیں ؟ صرف گھر بیٹھے یہ کہہ دینا کہ ہم دعا کریں گے مردوں کو زیب نہیں دیتا۔ مرد تو وہ ہیں جو محمد بن قاسم کی طرح حق کی خاطر جان دے دیتے ہیں بقول شاعر شمشیریں بیچ کر خرید لئے ہیں مصلے تم نے بیٹیاں لٹتی رہیں اور تم دعا کرتے رہے
اگر میدان میں نکل کر کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنے ضمیر کو جگا کر دیکھو جو شائد اپنی قبر کا نشان تک بھی کھو چکا ہے ہمارے اندر ہی کہیں ۔ کبھی غور کرو کہ امریکہ اپنے اس بھیڑیئے کو جو سرعام تین بیگناہوں کی جان سے کھیل گیا (ریمنڈ ڈیوس )اس کو ڈالروں کی چمک کے سہارے آزاد کروا لیا گیا ۔ اس بھیڑیئے کو بھی امریکہ نے آپ کی قید میں رہنے دینا گوارا نہیں کیا اور دوسری طرف ہماری وہ بیٹی جس نے حفاظت خود اختیاری کے طور پر بھیڑیوں کو جہنم واصل کیا اس کو امریکن عدالتوں نے چھیاسی سال کے لئے زندان بھیج دیا ۔قانون ہمارے ملک کا ہو یا دنیا بھر کا سیلف ڈیفنس کا ہر ایک کو حق حاصل ہے اور وہ اس قدر کڑی سزا کا حق دار نہیں ٹھہرایا جاتا جتنا ڈاکٹر عافیہ کو سیلف ڈیفنس کی سزا کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ امریکہ جانتا ہے کہ اب پاکستانیوں میں دم خم نہیں جو ایک بیٹی کی خاطر ہم سے الجھیں ۔ایک لڑکی بہت دنوں سے میرے خوابوں میں اکثر آتی ہے اور وہ مصلے پر بال کھولے ہوئے روتی ہوئی کہتی ہے کہ میں بے سہارا ہوں مجھے اپنا سہارا دے دو میں عافیہ ہوں مجھے زہر خدارا دے دو
خدایا میری قوم کے نوجوانوں کو محمد بن قاسم بننے کی توفیق دے دے تا کہ پھر کوئی لڑکی میرے خوابوں میں روتی ہوئی فریاد کرتی ہوئی دکھائی نہ دے ( آمین )عافیہ صدیقی کی وہ فریاد جو ہمارے ہرطرف گونج رہی ہے مگر مصلحتوں کی وجہ سے ہمیں سنائی نہیں دے رہی ہے (محمد بن قاسم کے والد قاسم کی روح کو مخاطب کرتے ہوئے ) اے قاسم بیٹے کو بھیجو پھر اس کی مجھے ضرورت ہے یہاں پھر غیرت کی قلت ہے غیرت کی دھرتی بنجر ہے پھر اس نے محمد نہیں جنا اک بیٹی عدو کی قید میں ہے پر باپ سکوں سے سوتا ہے کچھ تم بھی کہو کیا دنیا میں ایسا بھی کہیں کچھ ہوتا ہے اک بیٹی بہت ہی بھولی ہے پر سبھی نے عزت رولی ہے وہ روتی ہے چلاتی ہے جیتی ہے نہ مرنے پاتی ہے اب بچنے کے نہیں قابل وہ بس اتنا سا احسان کرو کچھ زہر دو ہاتھ میں بیٹے کے اور کہو کہ دے دے عافیہ کو اے کاش کہیں وہ مر جائے اور رب کے سامنے جب جائے تو پوچھے اس سے کیوں تم بھی میری چیخیں نہ سن پائے تھے کیوں نہ تو نے انکو غرق کیا بتا تیری کیا مجبوری تھی تیرے تو نبی ۖنے کہا تھا یہ کہ بیٹیاں بہت ہی افضل ہیں ان کی آہوں سے دھرتی کیا وہ عرش تلک کانپ اٹھتا ہے پھر کیوں میری عزت لٹنے پر تیرا عرش نہیں کانپا یا رب مجھے اتنا سا بس بتلا دے