تحریر: علی عمران شاہین وہ 30 مارچ کا ہی ایک روشن دن تھا۔ بہار کی آمد آمد اور پھولوں کی رعنائیاں رنگ دکھا رہی تھیں لیکن کیا کسی کو معلوم تھا کہ آج کے دن ایک ایسا پھول قید میں جانے والا ہے جس کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ پھول اکیلا نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ اس کے اپنے وجود کا حصہ 3 دیگر ننھے پھول بھی تھے۔ ان سب کو گھر سے نکلتے ہی کسی ایسی بلا نے نگل لیا کہ کئی سال تک پتہ تک نہ چل سکا کہ وہ کہاں غائب ہوئے۔
یہ عالم اسلام کی ایک سب سے تعلیم یافتہ 30سال کی عمر میں143ایواڈ لینے والی حافظہ قرآن، عالم دین ڈاکٹر عافیہ صدیقی تھیں جو اپنے تین بچوں کے ہمراہ چچا سے ملنے کراچی سے راولپنڈی جانے کے لئے گھر سے ایئرپورٹ کی جانب روانہ ہوئی تھیں اور پھر… راستے میں انہیں اچک لیا گیا۔پھر 5 سال گزرے، کسی کو کچھ پتہ نہ چل سکا کہ وہ سب کہاں ہیں؟ جیسے ہی یہ خبر عافیہ کی والدہ، بہن، بھائی اور دیگر رشتہ داروں نے سنی ہو گی تو ان پر کیا گزری ہو گی؟ کیا ہم چشم تصورسے ذرا سا بھی اندازہ کر سکتے ہیں…؟ ہرگز نہیں کہ ہمارے اجتماعی عمل نے ثابت کیا کہ عافیہ صدیقی 20 کروڑ پاکستانیوں میں سے تو سگی بہن صرف ایک بھائی اور ایک ہمشیر کی ہے۔
بدترین عذاب سہتے اورکوئلوں پر لوٹتے اس خاندان کے گھر چند دن بعد ایک شخص جو چمڑے کی جیکٹ اورسر پر ہیلمٹ پہنے ہوئے تھا، آدھمکا اور بیٹی کے یوں اچک جانے کے غم میں ڈوبی ماں سے مخاطب ہوا ” پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، عافیہ بچوں سمیت محفوظ ہے، اگر آپ اپنی بیٹی اور نواسیوں ،نواسوںکی صورت دیکھنا چاہتی ہیں تو زبان بند رکھیں” پھر وہ شخص یہ جا ،وہ جا… ماں نے سوچا شاید اسی طرح اس کی بیٹی اسے دوبارہ مل جائے… سو وہ کانٹوں پر لوٹتی… آہیں اور سسکیاں دباتی ،صبح شام، دن رات گننے لگی… کہ 26 مئی 2004ء کو امریکہ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اپنے لئے مطلوب دنیا کے 7 سب سے بڑے دشمنوں کی فہرست میں شامل کر کے اشتہار جاری کر دیا۔ سر کی بھاری قیمت رکھی… ظاہر ہے کہ فرعونوں اور نمرودوں کے ہاں انتہائی معمولی نظر آنے والے دشمنوں کے سر اور سانسیں انتہائی قیمتی ہوتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ ابرہہ کے ہاتھی لشکروں کو ابابیلوں کے کنکر ہی نابود کرتے ہیں جو کھوپڑیاں ایسے جابروں کی دہلیز سے بھی پہلے سجدہ ریز ہوتی ہیں، ان کی کیا قدر؟ کیا قیمت؟ 7جولائی 2008ء کی بات ہے کہ برطانیہ سے تعلق رکھنے والی ایک اور خاتون یووون ریڈلی نے اسلام آباد پہنچ کر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور کہا کہ فرعون زمانہ امریکہ کے دنیا بھر میں پھیلے بدترین عقوبت خانوں میں سے ایک بگرام جیل کے ایک آہنی کمرے میں بند قیدی نمبر 650 ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے جس پر امریکی ظلم ڈھاتے ہیں تو اس کی چیخوں سے جیل لرزنے لگتی ہے۔ پھر اس کی تصدیق اس جیل کو توڑ کر نکلنے والے 4 افغان مجاہدین نے بھی کی تو ایک ہنگامہ بپا ہو گیااور لوگوں نے امریکہ سے پوچھنا شروع کیا کہ اب بتائو عافیہ کہاں ہے… ؟عافیہ کی دعائوں اور التجائوں کا اثر دیکھئے کہ خود کو ہر لحاظ سے دنیا کا مالک و مختار کل سمجھنے والا امریکہ عافیہ کا نام سامنے آتے ہی لرزنے، کانپنے لگا کہ پھر10 روز بعد ہی 17 جولائی 2008ء کو خود ہی تصدیق کر کے کہنے پر مجبور ہو گیا کہ عافیہ ان کی قید میں ہے جسے صوبہ غزنی سے فوج کے ایک کیمپ کو بم سے اڑانے کی کوشش کے دوران گرفتار کیا گیا ہے۔
Ayaan Ali
اس نے وہ بم ایک بیگ میں چھپا رکھا تھا جو اس کے افغان خواتین کے روایتی نیلے برقع کے نیچے تھا۔ اس کے بعدہانپتے کانپتے امریکیوں نے بتایا کہ وہ 18 جولائی کے روزعافیہ سے تحقیقات کر رہے تھے۔ ان کے بقول ڈاکٹر عافیہ پردے کے دوسری طرف تھی، ایک تحقیقاتی افسر نے اپنی گن زمین پر رکھی کہ ڈاکٹر عافیہ نے وہ بندوق اٹھا کر تکبیر کے نعرے بلند کئے اور انہیں قتل کرنے کی دھمکیاں دیں۔ اس پر وہاں موجود دوسرے سپاہیوں نے عافیہ پر گولی چلا دی۔ وہ گر پڑی… پھول سی عافیہ کے خون کے فوارے پھوٹ پڑے تھے… کہ اسے گرفتار کر کے خصوصی طیارے کے ذریعے امریکہ پہنچا دیا گیا۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے ابھی امریکہ کی ذلت عافیہ صدیقی کے ہاتھوں بہت طویل لکھ رکھی تھی کہ تھوڑے سے علاج کے بعد 4 اگست2008 کو ایف بی آئی نے عافیہ کو خصوصی طیارے کے ذریعے نیویارک منتقل کر کے مقدمہ شروع کیا۔ وہ کیا منظر ہو گا جب پہلی بار سپر پاور کے پہلوان تہہ در تہہ سکیورٹی حصاروں میں گولیوں سے چھلنی 35 سالہ خاتون کو وہیل چیئر پر خود دھکا لگا کر عدالت لے کر آ رہے ہوں گے۔ یوں اس حراست کو 18 ماہ گزر گئے کہ مقدمہ کا ایک بار پھر آغاز ہوا اور پھر 23 ستمبر 2010ء کو امریکہ کی شرمندگی اور رسوائی کا ایک اور باب رقم ہوا جب نیویارک کی عدالت نے اعلان کیا کہ عافیہ صدیقی کو گن اٹھانے، ارادہ قتل اور گن چلانے کی کوشش کی پاداش میں 86 سال قید سنائی جاتی ہے۔
اب عافیہ کی خبر ہم تک پہنچانے والی یووون ریڈلی کی بھی تو سنئے کہ جو اپنے افغانستان کے ایک رپورٹنگ مشن کے دوران وہاں کے حکمران ملامحمدعمر کے ساتھیوں کی قید میں چلی گئی تو صرف 11 دن کاحسن سلوک اس کے قلب و روح کو ایسا متاثر کر گیا کہ اس نے اسلام کو ہی گلے لگا لیا۔ وہ کہتی ہیں کہ اسے قید کرنے والے مجاہدین اسے بہن سمجھتے تھے، جو خود کھاتے، وہی اسے کھلانے کے بعد خود کھاتے۔ ان کی خواتین اس کے کپڑے دھوتیں۔ یہ تو وہ لوگ تھے جنہیں سارا جہاں دہشت گرد، جاہل، گنوار، اجڈ، وحشی، خونخوار بلکہ آدم خور سمجھتا تھا تو دنیا کو جانوروں کے حقوق کا سبق دینے والوں کے لئے عافیہ ایک ایسا پہاڑ ثابت ہوئی ہے کہ اس کی ہر حرکت ان کے لئے بدترین ندامت کا باعث ہے۔
تنہا تنگ و تاریک کمرے میں قیدعافیہ کی چیخیںامریکہ سے پاکستان پہنچیں تو یہاں کے کچھ لوگوں نے اسے اپنے آرام و سکون میں خلل سمجھتے ہوئے جان چھڑانے کے لئے کہنا شروع کر دیا کہ وہ پاکستانی نہیں بلکہ ایک امریکی شہری ہے۔خدا کی شان کہ ایک ایسی ہی صنف نازک اور اسی کے شہر کراچی کی رہنے والی بھی کچھ ایسے ہی کہتے کہتے قبر کے اندھیروں میںاتر چکی۔اس کا تو جسم ہی نہیں، نام و نشان بھی مٹ چکا لیکن عافیہ ابھی زندہ ہے… سپر پاور کے امتحان کے لئے،مسلم کہلوا کر بے غیرتی کی زندگی گزارنے والوں کے لئے۔ یہ بھی سننے کو ملا کہ عافیہ بے پناہ امریکی مظالم سے ذہنی توازن کھو چکی ہے… سوچتا ہوں کہ اگر واقعی ایسا ہے تو بھی اس لئے تو اچھا ہے کہ اگر وہ ابو غریب کی فاطمہ کی طرح ہمیں خط لکھتی تو ہم کیا کرتے؟ ظاہر ہے کچھ بھی نہیں… وہ تواس شہر کراچی کی رہنے والی ہے جس کے سمندروں کو چیر کر محمد بن قاسم اس خطے میں ایک ایسی ہی بہن کی پکار پر یہاں پہنچا تھا … شاید اسے اب یہ یاد نہ ہو کہ وہ کس شہر کی باسی اور کس سمندر کے کنارے رہنے والی نشان غیرت تھی۔ اس کا ذکر ہمارے میڈیا کے لئے بھی کسی طور کشش کا باعث نہیں کہ اس کی خبر ہمارے مست الست لوگوں کے ”رنگ میں بھنگ” ڈالنے والی ہے… ہماری خبر تو وہ ماڈل ایان ہے جو 14 مارچ کو دبئی 5 لاکھ ڈالر منتقل کرتے ہوئے پکڑی گئی۔ ہر لمحہ ہر گھڑی خبر آ رہی ہے،” ایان مچھروں سے پریشان … ایان کو الرجی ہو گئی،ایان بی کلاس مانگتی ہیں، ایان نے ناشتے کے لئے جوس مانگ لئے… ایان نے وزن والی مشین طلب کرلی۔ایک طرف 12 سال کی داستاں ہے تو دوسری طرف 12 دن کی باتیں… کوئی پوچھنے والا نہیں کہ اصل خبر کیا ہے…؟ لیکن ایسے سب کرداروں کو یاد رکھنا چاہئے کہ عافیہ اگر عافیت میں نہیں کسی کو بھی عافیت نہیں ملے گی۔ ضرور سوچنا ہو گا کہ ہماری عافیت کب سے بگڑی؟ ہماری اجتماعی بربادی اور تباہی کا ایک ڈانڈا 12 سال پہلے کے 30 مارچ سے ضرور جڑا ملے گا۔