30 اگست بروز جمعہ پاکستانی قوم کو مقبوضہ کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یک جہتی مناتے دیکھا ، وزیر اعظم کی جانب سے کی جانے والی اپیل پر تنقید کے ساتھ تعریف بھی ہوئی۔ انٹرنیشنل میڈیا خلاف توقع ، بھارت کے ‘ ہندو توا’ کو بڑے جوش و خروش سے اجاگر کررہا ہے۔ ان میں وہ میڈیا ہائوس بھی ہیں جو پاکستان مخالفت میں بھی صف اول کا درجہ رکھتے ہیں ۔ اس لئے ان سے بعید نہیں کہ کب یو ٹرن لے لیں اور الٹا پاکستان پر ہی الزامات دھرنے لگ جائیں ۔ اب کیا قیاس آرائی کی جائے کہ جن عالمی ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے ممالک خاموش ہوئے بیٹھے ہیں، ان کا میڈیا چیخ چیخ کر انہیں حقوق انسانی و مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کی درندگی دکھا رہا ہے ۔ اس کے باوجود اقوام عالم کی بے حسی نئی نہیں ہے۔
جہاں جہاں مسلم امہ پر تکلیف و ظلم وستم کی بات آتی ہے تو خود ملت اسلامیہ بھی تفرقے کا شکار ہوجاتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے لئے یک جہتی کا ایسا اظہار ہر برس پانچ فروری کو ہوا کرتا تھا ، لیکن رسمی اور وایتی اقدامات بالاآخر جمود کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بلا شبہ مقبوضہ ایک عالمی تنازعہ ہے ۔جو70برسوں سے اقوام متحدہ کے ضمیر کو جھنجوڑ رہا ہے ۔ لیکن جس طرح مسلم اکثریتی ممالک خواب غفلت میں ہیں اسی طرح عالمی برداری بھی افیون کھا کر سو چکی ہے ۔ انہیں جگانے کے لئے مجبوراََ دو کام کرنے پڑتے ہیں ، اول مظاہرے اور احتجاج سے انہیں بیدار کیا جائے ۔ دوئم اُس خطے میں جنگ شروع ہوجائے۔ دونوں ہی اقدام آزمائے جا چکے ہیں اور حل نہیں نکل رہا ۔ اس کی بنیادی وجہ عدم اتفاق و فروعی اور سیاسی مفادات ہیں۔ کشمیر و افغانستان کی عوام پر جارحیت، ظلم و ستم کے حوالے سے تواتر سے اپنی بساط کے مطابق لکھ رہا ہوں ۔ لیکن اس وقت مجھے مقبوضہ کشمیر کے بے سرو ساماں و نہتے لاکھوں کشمیریوں کو چار ہفتوں سے اسیر دیکھ کر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی یاد آرہی ہے ۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی اسیری کے 6000دن 2ستمبر2019کو مکمل ہوچکے ہیں۔ ان کے بچے ، والدہ اور بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اپنی متاع حیات کو دیکھنے کے لئے ترس رہے ہیں۔ ان کی بے بسی و لاچاری ناقابل بیاں ہے کہ 6000دن بیت گئے اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو دیکھنے سے محروم ہیں ۔ کبھی عافیہ کے مرنے کی خبر دل دہلاتی دیتی تو کبھی بیمار و ناتواں جسم کی مالک کے بیماری کی کیفیت کا اندازہ لگاتے ہیں تو جھرجھری آجاتی ہے۔ پاکستانی قوم نے ملک کے اندر اور بیرون ملک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لئے بڑے بڑے مظاہرے و احتجاج کئے ہیں ، انسانی حقوق کی اسی کون سی تنظیم ہے جن سے عافیہ کے اہل خانہ نے رابطہ نہیں کیا گیا ۔ کون سے پاکستانی حکمران و حکام ہیں جنہوں نے عافیہ کے اہل خانہ کو جھوٹی یاس و آسرے نہیں دیئے ۔ عافیہ صدیقی کے لئے ایسا کونسا جمہوری و قانونی طریقہ ہے کہ جو نہیں اپنایا گیا ہو۔ذا تی طور پر جب میں نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی و والدہ عافیہ صدیقی سے ایک ایک ادارے ، ایک ایک میڈیا پرسن ، سیاسی شخصیات ، ریاستی اداروں کے ارباب و اختیار کے نام لے لے کر پوچھا کہ کیا ان کے در دستک کو نہیں کھٹکایا تو ان کی ٹھنڈی اور افسردہ مایوس کن سانسوں کی افسردگی کو لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔
آج ایک بار پھر پاکستانی قوم مقبوضہ کشمیر کی بیٹیوں ، مائوں ، بہنوں اور نہتے بچے ، جوان و بوڑھوں کی آواز بن کر عالمی ضمیر کو جگانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ اللہ کرے یہ کوششیں کامیاب ہوں لیکن ماضی کے تمام تجربات کو دیکھتے ہوئے کم ازکم میں یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ ہاتھ پھیلانے والوں کو تھاما نہیں، جھٹکا جاتا ہے۔ یہ عمل کئی عشروں سے دیکھتا چلا آرہا ہوں ۔ آج مسلم امہ کو خود ہمارے مسلم و مومن بھائی بہن تضیحک و طنز کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں باہمی اختلافات کی وجہ سے اپنا اثر و رسوخ کھو چکی ہیں۔ ان حالات میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے کوششوں کو دیکھتا ہوں تو دل رونے کو چاہتا ہے کہ جہاں قوم کی ایک بیٹی کی عزت و ناموس کی حفاظت ہم سے نہ ہوسکی ، لاکھوں مائوں،بہنوں ، بیٹوں کی عصمت کو ہم کس طرح پامال ہونے سے بچا سکیں گے ۔ اگر عافیہ صدیقی کے لئے سابق و موجودہ حکومتیں قومی غیرت کا مظاہر ہ کرتے تو کسی کو بھی اتنی جرات نہ ہوتی کہ وہ لاکھوں نہتے نوجوانوں، بوڑھے بزرگ اور مائوں،بہنوں ، بیٹیوں کی عزت کو تار تار کرتے۔ آج عالمی ذرائع ابلاغ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر چادر و چار دیواری’ ہندو توا ‘کی نظر ہوچکا ہے ۔ آر ایس ایس نے اپنے دیرینہ خواب کو پورا کردیا ہے ۔ اگر پاکستانی قوم، عافیہ کے لئے جان لڑا دیتی تو ہندو انتہا پسند لاکھ مرتبہ سوچتے کہ جو قوم اپنی ایک بہن کی عصمت کے لئے جان کی پرواہ نہیں کرتی اگر ہم نے ان کی اور بیٹیوں کے سر سے چادر اتاری تو وہ ہماری کھال اتار دیں گے ۔
آج بھی امت مسلمہ موجود لیکن خواب غفلت میں ہے ، انہیں جگانے کے لئے ان گنت جمعے مقبوضہ کشمیر کے نام کرنا ہونگے ۔ اسی طرح عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے اُس صحافی کی طرح جرات سے کام لینا ہوگا جس نے دورہ امریکا میں وزیر اعظم سے عافیہ صدیقی کے حوالے سے پریس کانفرنس میں سوال اٹھا کر عمران خان و عالمی ذرایع ابلاغ کو بھی ششدر کردیا تھا۔عمران خان اپنے وعدے کا ابھی تک تو پاس نہیں کرسکے ہیں ۔ لیکن انہیں یاد دلانے کے لئے نقار خانے میں طوطی کی آواز بن کر یاد دلاتے رہیں گے کہ عافیہ صدیقی کی اسیری کو6000دن ہوچکے ہیں۔ انہیں اپنا فرض پورا کرنا ہوگا ۔ یہ کسی پر احسان نہیں ہے بلکہ ریاست کے حکمراں ہونے کے سبب ان کا فریضہ ہے کہ وہ اپنا وعدہ پورا کریں ۔ عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے آواز اُس وقت تک اٹھتی رہے گی جب تک پاکستان قائم ہے ۔ پاکستانی قوم کی غیرت و خودداری کو ازسر نو بیدار کرنا ہوگا کہ سیاسی جماعتوں کے فروعی مسائل و سیاست میں اپنے ملی فریضے کو نہ بھولیں ۔ارباب اختیار کو6000دن سے جھنجوڑا جارہا ہے کہ اگر آج عافیہ صدیقی کے سر سے اتاری گئی چادر واپس سر پر نہ رکھی تو یہود و نصاری ، ہنود کے ساتھ مل کر مسلم امہ کی دھجیاں بکھیر دیں گے ۔ آج امریکا کے جنوبی ایشیا میں مفادات ہیں ، کل کو یہ مفادات ختم ہونے کے بعد پاکستان کے لئے مشکلات بڑھ جائیں گی ۔ یہ معاملہ صرف ایک عافیہ صدیقی کا نہیں بلکہ یہ تمام امت مسلمہ کا ہے ۔ افغانستان ہو ، یا ہندوستان ، برما ہو یا لبنان ، شام ہو یا یمن ، عراق ہو یا صومالیہ، افریقہ ہو مغرب کا اسلام فوبیا کو لے کر مسلمانوں کا قتل عام ۔ آخر کب تک برداشت کرتے رہیں گے ۔ کیا مظلوم مسلمانوں کی امداد کے لئے کسی آسمانی مخلوق کا انتظار ہے تو یاد رکھیں کہ کوئی اُس وقت تک کسی کی مدد کے لئے نہیں جائے گا جب تک وہ خود اپنی مدد آپ نہ کرے۔
مقبوضہ کشمیر میںوہی ظلم و سفاکیت ہو رہی ہے جو عافیہ صدیقی کے ساتھ امریکی جیل میں برپا ہے ۔ سیاسی مصلحتوں نے عافیہ صدیقی کو 6000 دنوںسے بے گناہ امریکا کا اسیر بنا ہوا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کو 70 برسوں سے بھارتی جارحیت سے پاک نہیں کیا جاسکا ۔ نہ جانے کس محمد بن قاسم یا محمود غزنوی یا شیر شاہ سوری انتظار کیا جارہا ہے۔ اسلاف کے کارناموں کو بیان کرنے سے نہیں عمل کرنے سے کامیابی ملتی ہے۔اب بھی وقت ہے کہ مسلم اکثریتی ممالک کے حکمرانوں کو بیدار کرنے کے لئے مسلم امہ خود کو بھی خواب غفلت سے نکالے۔ پاکستان کے ہر شہری کو عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے آواز اٹھاتے رہنا ہوگی کیونکہ عافیہ صدیقی کی رہائی ہی اس منشر قوم کو یکجا و متحد کرسکتی ہے اور یہی وہ خوف ہے جس کی وجہ سے ہمارے سیاسی شاہ پرست عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے جھوٹے دلاسے دیتے آرہے ہیں۔