تحریر: حفیظ خٹک شہر قائد کے پریس کلب پر گذشتہ 85 دنوں سے سہ پہر کے اوقات میں چند مائیں ، بہنیں ، بیٹیاں ، بچے آتے ہیں ، خاموش احتجاج کا آغاز کرتے ہیں ، ہینڈبلز ، پوسٹرز رکھتے اور بانٹتے ہیں اور اس کے بعد نعرے لگاتے ہیں۔کبھی قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور اکثر دعائیں کرتے ہیں۔ ان کے چہرے آنسوؤں سے تر ہوتے ہیں ۔ان کا یہ عمل جاری رہتا ہے قرب و جوار سے گذرنے چند لمحے ان کی جانب متوجہ ہوتے ہیں کچھ ٹہر کے انہیں دیکھتے ، بینرز کو پڑھتے ہیں پھر گہری سانس لیتے سر جھکائے چل پڑتے ہیں۔ صحافی ، فوٹوگرافر بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں اور وہ بھی پریس کلب کے اندر یا دفتر کی جانب چل پڑتے ہیں۔ سیاسی ،سماجی ، مذہبی جماعتوں کے رہنما ؤں سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں کے وفود بھی ان کے پاس آتے ہیں چندلمحے ان کے پاس بیٹھتے ہیں ان کی آہیں سنتے ہیں ان کے سامنے اپنی رائے اور جذبات کااظہارکرتے ہیں پھر چلے جاتے ہیں۔
ہر ایک فرد سے ، ہر اک وفد سے احتجاج کرنے والے ایک بات کرتے ہیں ایک مطالبہ کرتے ہیں ، مظاہرین آنے والوں کو ہار بھی پہناتے ہیں تاہم مظلومیت کی، بے بسی کی ، بے حسی کی ، وزیر اعظم نواز شریف کی بے وفائی کی وطن عزیز کے ہم وطنوں کی ، ملت اسلامیہ کی ، اقوام عالم کی چپ پراقوام متحدہ کے منافقانہ کردار پر مطالبہ نہ مانے کے عیوض آنسو خود بہاتے ہیں اورآنے والے بھی سرجھکا کر درون دل روتے ہیں۔روز اک امید لئے یہ مظاہرین آتے ہیں اور امید وں کے چرا غوں کو بھجنے سے روکنے کی کاوشوں کے ساتھ چلے جاتے ہیں۔ صرف ایک بات ، ایک مطالبہ ، ایک آواز ، ایک پکار کو لے کر یہ احتجاج کرنے والے پہلے دن آئے تھے اور آج 85دن ہوگئے ہیں انہی جملوں کو اٹھاتے ہوئے روحیں ان کی تھک گئی ہیں تاہم جسم ابھی مطالبے کی مان تک جوان ہیں اور انہیں اس بات کا یقین ہے کہ وہ دن آئیگا جب ان کی آواز ، ان کا مطالبہ ان کی ہی نہیں سبھی کی آرزو پوری ہوگی اور وہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی باعزت رہائی پاکر اپنے وطن آئیگی ۔
Ahamed
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کرو، کا ایک نعرہ ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے تنہا برسوں پہلے خود لگایا تھا ، اس وقت تو بہن کے ساتھ اس کے تین بچے بھی نہیں تھے ، ایک بہن اور اس کے تین بچے احمد ، مریم اور سلمان ۔ ان کو ڈھونڈنے اور واپس لانے کیلئے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے آواز بلند کی ان کی اس آواز میں اس احتجاج میں آوازیں شامل ہونا شروع ہوئیں ۔ان کی آواز دب نہ سکی اور جدوجہد رک سکی ان کی کوشیں رنگ لائیں ، مریم و احمد گھر پہنچے ۔ بہن جس کا پتہ نہ تھا اس کا پتہ چلا اور اس کے ساتھ ظلم کی داستانیں جڑی اور بڑھتی رہیں انہیں انصاف سے سب سے بڑے علمبردار امریکہ نے اپنی وحشت کا اپنی بربریت کا نشانہ بنایا اور اپنے فوجیوں کے ہاتھوں مار ڈالا ۔ لیکن مارنے والوں سے بچانے والا بہت بڑا ہے ۔ اس نے بچایا اور پھر یہی امریکی اسے اپنے امریکہ لے گئے جھوٹے مقدمے ، جھوٹے دعوے اور جھوٹی عدالت میں جھوٹے جج کے سامنے پیش کیا ، الزام لگائے ، جو رد بھی ہوئے لیکن اس معصوم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ناکردہ گناہوں کی 86برس کی سز ا دی۔
وہ سزا چل رہی ہے ، ڈاکٹر عافیہ صدیقی خاموشی سے سزا بھگت رہی ہیں اور اسی خاموشی سے آسمان کو تک رہی ہیں ۔ پاکستان کے حکمرانوں سے امت مسلمہ کے حکمرانوں سے نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں سے انہیں کوئی امید نہیں ہے ،ہاں صرف اس ایک سے اس آسمان والے سے امید ہے کہ وہ ایک دن ضرور اسے قید سے رہائی دلوائے گا اور باعزت انداز میں زندگی کے ان پہلووں کو اجاگر کرائے گا اپنی ماں سے اور اپنے بچوں سے ، اپنی بہن و بھائی سے اور اپنے ہم وطنوں سے وہ ملوائے گا ۔ہاں وہ دن ضرور آئیگا۔
احمد آیا ، مریم آئی دونوں سے پڑھنا بھی شروع کیا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے احمد تو حافظ قرآن بھی بن گیا ہے ، کامیابی ہے جو قدم بقدم ان کے سامنے آرہی ہے لیکن ایک ماں سامنے نہیں ہے اور ایک بچھڑا بھائی بھی نہیں ہے۔ ماں کا تو پتہ ہے کہ امریکہ کے اک جیل میں ہے لیکن بھائی کا تو آج تلک علم ہی نہیں کہ وہ کہاں ہے ، کیسا ہے ؟ احمد و مریم کو بھی یہ یقین ہے کہ اک دن آئیگا جب ان کی ماں ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور بھائی سلمان ضرور ان کے پاس آئیں گے اور ساتھ جئیں گے۔
Promise
پریس کلب پر احتجاج کا یہ کیمپ امریکی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف ہے جس میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ناکردہ گناہوں کے سبب 86 برسوں کی سزا سنا ئی گئی۔ 86 دنوں کا یہ احتجاج وزیر اعظم کو ان کا وعدہ یاد دلانے کیلئے بھی ہے وہ وعدہ کہ جب انہوں نے گورنر ہاؤس میں عصمت صدیقی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بچوں سے کیا تھا کہ وہ امریکہ جاکر اوبامہ سے ان کی رہائی کی بات کریں گے۔
لیکن انہوں نے آج تک وہ وعدہ آج تک پورا نہیں کیا ۔ اب جب کہ اوبامہ بھی صدارت ختم کرنے جارہے ہیں اور نئے صدر ٹرمپ بننے آرہے ہیں لیکن نواز شریف نے نہ تو اوبامہ سے قوم کی بیٹی کی رہائی کی بات کی ہے اور نہ ہی نئے بننے والے صدر سے ۔ 86دن سے احتجاج کرنے والے یہ سب لوگ ، قوم کی بیٹی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سمیت پوری قوم وزیر اعظم سے یہ پوچھتی ہے کہ انہوں نے اب تلک قوم کی بیٹی کی رہائی کیلئے کوئی قدم کیونکر نہیں اٹھایا انہیں اپنی بیٹی مریم کا خیال ضرور ہے لیکن قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی مریم کا خیال کیونکر نہیں ہے ۔ جب مجرم امریکیوں کو باعزت انداز میں امریکہ کے حوالے کر سکتا ہے تو پھر اپنی شہری کو باعزت انداز میں رہائی کیوں نہیں دلواسکتا ؟
Protest
86 دن کا احتجاج پریس کلب پر ختم ہوجائیگا لیکن یہ احتجاج آگے بڑھے گا اور شہر قائد سمیت پورے ملک میں بڑھتا چلا جائیگا ۔ اک وقت وہ بھی آئیگا جب امریکہ کی اپنی عوام ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے سڑکوں پر آجائیگی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی باعزت رہائی پاکر وطن عزیز آجائے گی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کرو،آج ایک نعرہ نہیں یہ ایک تحریک ہے جس کا انجام ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی پر اختتام پذیر نہیں ہوگا بلکہ ہر مظلوم قیدی کو رہائی دلوائے گا۔