پوری دنیا سمیت پاکستان میں 8 مارچ کے روز خواتین کا عالمی دن منانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ یہاں اس بات کی تعریف کی جائے کہ خواتین نے ہر دور میں اس معاشرے میں رہتے ہوئے معاشرتی ،اقتصادی اور سماجی ترقی میں ایک قابل ستائش کرداراداکیا ہے وہاں اس بات کی طرف بھی دیکھناہوگا کہ دنیاوی ترقی اور خوشحالی میں گرانقدرخدمات اداکرنے کے باوجود عورت ہرد ور میں مظلومیت ایک داستان بھی بنی رہی ہے ،جہاں دنیا میں عورت کے بغیر ہرمعاشرہ ادھوراسمجھا جاتاہے وہاں خواتین کے حقوق کو بھی بری طرح سے پامال کیا جاتارہاہے اس کے باوجود خواتین کی جانب سے ترقی اور خوشحالی کاسفر کبھی رکنے نہ پایاہے یہ ہی اداکسی بھی متاثرہ عورت کی بہادری کی مدلل دلیل سمجھی جاتی رہی ہے ہم ایسی بہت سی مثالیں پیش کرسکتے ہیں جہاں ایک بہترین معاشرتی کردار ادا کرنے کے باوجود خواتین کا نہ صرف تشخص پامال کیاگیا وہاں اس کی فلاح وبہبود کو بھی تمام تر محنت کے باوجودنظر اندازکیا جاتا رہا ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں بہت سے ممالک ایسے بھی ہیں جن میں بچیوں کی تعلیم وتربیت کے مواقع بہت محدود ہوتے ہیں اس طرح انہیں ان پڑھ رہ جانے کی وجہ سے زندگی کے بہت سارے معاملات میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرناپڑتاہے ایک کامیاب اور اچھے معاشرے کی یہ کوشش اور ذمہ داری ہوتی ہے کہ خواتین کو تعلیم وتربیت کے بلاتفریق مواقع ملنے چاہیے ہم نے دیکھا ہے کہ آئین اور قانون میں ایسی بہت سی سہولیات موجود ہیں جوخصوصاًخواتین کے لیے ہی رکھی گئی ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ان تمام تر سہولیات کے ہونے کے باوجود عملی طورپر خواتین اس فائدے سے محروم ہی رہتی ہیں ،جہاں ایک طرف حکومت کا یہ فرض ہوتا ہے کہ خواتین کی فلاح وبہبود کا خیال رکھاجائے اور ان کی بنیادی ترقی کا خیال رکھا جائے وہاں معاشرے پر بھی اتنی ہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ خواتین کے حقوق کی حفاظت کی جائے اور ان کی ترقی میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بجائے ان کو ترقی کے مواقع فراہم کیے جائیں ،اس سلسلے میں بہت سی معاشرتی فلاح وبہبود کی تنظیموں خصوصاً غیرسرکاری رضاکارانہ تنظیموں کا کردارقابل قدر ہے جنھوں نے اپنی فلاحی تنظیم کے منشور میں عورتوں کے ہنر اور بچیوں کی تعلیم وتربیت کا خصوصی انتظام کیا ہوتاہے وہ انہیں دستکاری ہنربھی سکھاتے ہیں تاکہ وہ اپنا روزگار اپنے ہاتھوں سے کمانے کے قابل ہوجائیں ، جبکہ حکومت پاکستان کو شعبہ خواتین کے حوالے سے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین کی تعلیم وتربیت اور انہیں ہنر سکھانے کے مواقع زیادہ سے زیادہ پیداکیئے جا سکیں۔
اس کے ساتھ قانون میں ایسی ترمیم لانے کی ضرورت ہے کہ جس پر عملدرآمد کی صورت میں خواتین کے ساتھ کسی بھی قسم کی زیادتی کے واقعات نہ جنم لیں سکیں اورمعاشرتی سطح پر ایک عورت خاندانوں میں بنے ہوئے نام نہاد رسم ورواج کے بھی بھینٹ نہ چڑھ سکے ،ہمارا پاکستان دنیا میں ایک ایسامقام بھی رکھتاہے جسے جان کر ہماری معلومات میں حیرت انگیز اضافہ ہوتاہے اس ملک نے ہمیں دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی صورت میں دی جو پوری دنیا کے لیے کسی اچنبھے سے کم بات نہیں تھی اس کے علاوہ اسیپکر قومی اسمبلی اور پارلیمانی لیڈرسمیت بہت سے ایسے حکومتی عہدوں پر فائز رہنے والی یہ عورتیں پاکستان کو میسر رہی ہیں جو ابھی تک مختلف حکومتی شعبوں میں اپنی ذمہ داریاں اداکرنے میں مصروف ہیں اس کے ساتھ ساتھ ایک افسوس ناک امر یہ بھی ہے کہ اسی پاکستان میں ہماری ایک بیٹی پاکستان کی نیوروسائنٹسٹ ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی ہیں جو اس وقت امریکا کی قید میں موجود ہیں جس پر بے بنیاد اور جھوٹے الزامات لگائے گئے،جسے امریکا نے 2003 سے اغواکرکے اپنے قید خانے میں رکھا ہواہے ،اس وقت ان کی عمر تقریباً تیس سال تھی جو اس وقت سولہ سال سے امریکا کی قید میں اپنی جوانی اور بچوں کی تربیت کے سنھرے لمحات کو سلاخوں کے پیچھے گنوا چکی ہیں۔
افسوس کہ جہاں اس ملک میں خواتین کو ایک بنیادی مقام ملا ہے وہاں ان سیاسی طاقتور خواتین کے ساتھ حکومت پاکستان کا یہ بنیادی فرض بنتاہے کہ وہ عافیہ صدیقی کو امریکا کی قید سے نجات دلاکر پاکستان واپس لے آئیں تاکہ وہ اپنے خاندان اور اپنے بچوں کے ساتھ اپنی زندگی کو گزارسکیں یہ ایک ایسا چیلنج ہے جو حل کرنے کی سکت رکھتے ہوئے بھی حکومتی لوگ اس معاملے کو لٹکائے ہوئے ہیں،میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر عافیہ کے سلسلے میں پاکستان کو سفارتی سطح پر امریکا سے معاملہ اٹھانا چاہیے اس قسم کے وعدے ماضی میں بھی کیے جاتے رہے ہیں گزشتہ سولہ برسوں سے آنے والی حکومتوں میں سے شاید ہی کوئی ایسی حکومت ہوگی جس نے اقتدار بنانے سے پہلے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی بات نہ کی ہوبلکہ موجودہ حکومت کے بارے میں تو یہ کہا جارہاتھا کہ شاید تحریک انصاف کی حکومت اپنے پہلے ہی مہینے میں اس مسئلے کو حل کروالے گی مگر تقریباً آٹھ ماہ گرزنے کے باوجود بھی موجودہ حکومت سے ہم مایوس نہیں ہیں اور یہ امید کیئے ہوئے ہیں کہ شایدحکومت اس مسئلے کو ضرور حل کروالے گی۔
گزشتہ ادوار میں مختلف ناقابل معافی سزاؤں میں امریکی اداروں کے لوگ پاکستان میں پکڑے جاتے رہے ہیں مگر افسوس حکومت نے ان کی باعزت واپسی کو ترجیح دی بجائے اس کے کہ عافیہ صدیقی کو ان قیدیوں کے تبادلے کی صورت میں واپس لے آتے ،مگر اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے بہت سے قانونی طریقوں کو جانتی ہے جس کی رو سے وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو واپس لاسکتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ اس مسئلے پر سنجیدگی دکھانے کی ضرورت ہے ،امریکی جیل سے حکومتی قیام کے دنوں میں عافیہ صدیقی کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو ایک خط بھیجا گیا۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے پاکستانی قونصل جنرل کو ہیوسٹن جیل میں ملاقات کے دوران خط دیاجس میں لکھا تھا کہ عمران خان نے ماضی میں میری رہائی کے لیے بہت حمایت کی تھی۔
لہذا عمران خان رہائی میں میری مدد کریں میں اس قید سے نکلنا چاہتی ہوں،عافیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ عمران خان ہمیشہ سے ہی میرے ہیرورہے ہیں میں مستقبل میں انہیں مسلمانوں کے خلیفہ کے طورپر دیکھنا چاہتی ہوں۔آج عافیہ صدیقی کی خواہش کے مطابق عمران خان اس ملک کے وزیراعظم تو بن چکے ہیں مگر ایک خواہش جو ان کی رہائی کی ہے وہ کب پوری ہوتی ہے اس پر کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا اور جہاں تک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ہیرو والی بات ہے وہ پوری قوم اس وقت تسلیم کریگی جب واقعی وزیراعظم عمران خان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی جیل سے چھڑاکرلے آئینگے اور ا س وقت وہ صرف ڈاکٹر عافیہ کے ہی نہیں بلکہ ہر اس مظلوم عورت کے ہیرو قرار پائینگے جو اس معاشرے میں اپنے ناکردہ گناہوں کی سزابھگت رہی ہیں۔