تحریر: سید انور محمود عامر لیاقت نے 2002 میں قومی انتخابات میں حصہ لیا اور متحدہ قومی موومنٹ کی وابستگی سے قومی اسمبلی میں نشست حاصل کی، 2007 میں وزیر کی حیثیت سے عامر لیاقت کو حج کوٹے کو فروخت کرنے کا الزام لگا تو ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی اور وزارت دونوں سے استعفی دلوانے کے ساتھ ساتھ عامر لیاقت کو متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے بھی نکال دیا تھا، جون 2016 میں ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے ان کی رکنیت بحال کر دی تھی۔ الطاف حسین کی 22 اگست 2016 کی نامناسب تقریرکے بعدڈاکٹر فاروق ستار کے ساتھ ساتھ عامر لیاقت کو بھی رینجرز نے گرفتار کرلیا تھا، اگلے دن دونوں کو رہا کردیا توایم کیو ایم کی قیادت فاروق ستار نے سنھبالی جو شاید موصوف کے خیال میں انکو ملنا چاھیے تھی،لہذا پاکستان زندہ باد کے خوب نعرئے لگوائے کیونکہ الطاف حسین کا پاکستان مردہ باد کے نعرے کے بعد عامر لیاقت کو یہ ڈر بھی تھا کہ الطاف حسین کی تقریر کے بعد ان کی مذہب فروشی کی ریٹنگ گرسکتی ہے یعنی مالی نقصان۔ لہذااگلے روز ایم کیو ایم سے اپنا ناطہ توڑ لیا اور اپنے محب وطن ہونے کا ثبوت بھی فراہم کر دیا۔
عامر لیاقت حسین کے ساتھ بہت سارئے القابات لگے ہوئے ہیں جیسے پاکستانی سیاستدان،معروف مذہبی اسکالر، میڈیا اینکر، براڈکاسٹر، شاعر، اور مذہبی شخصیت۔ ان القابات میں سے بہت سے القابات جنگ اور جیو گروپ کے مدیر میر شکیل الرحمان کے عطا کردہ ہیں ۔ عامر لیاقت حسین نےمیڈیا میں اپنی پہلی انٹری 6 اگست 2010 کو جیو نیوز پر دکھائے جانے اپنے پہلے شو ’عالم آن لائن‘ سے کی۔ جس وقت عامر لیاقت نے یہ پروگرام شروع کیا تھاوہ کلین شیو تھے، ان کے چہرئے پر نظرپرآنے والی داڑھی کاروباری ہے، کیونکہ عالم آن لائن پروگرام کے دوران بہت سارئے لوگوں نے عامر لیاقت سے داڑھی رکھنے پر اصرار کیا تھا۔ داڑھی رکھنے کا فائدہ یہ ہوا کہ عامر لیاقت کا مذہبی چورن اور مہنگے داموں بکنے لگا۔ پھر ایک دن عامرلیاقت نے رمضان فروشی کا نیا آئیڈیا نکالا اور راتوں رات اسکی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوگیا۔ وہ بہت تیزی سے نوٹ چھاپنے والی مشین بن گیا۔ اس مال بنانے والے پروگرام کو تمام ٹی وی چینل فالو کیا اور پھر یہ مذہبی پروڈکٹ سلام رمضان، رحمان رمضان، مہمان رمضان، پہچان رمضان، امان رمضان اور پاکستان رمضان شامل کے نام سے ہر چینل پر خوب بکی۔ اس کے علاوہ موصوف نے دینی مسائل اور ان کے حل پر مبنی دینی معلومات کے پروگرام ’عالم آن لائن‘ کے علاوہ ’ عالم اور عالم‘ اور ’عالم آن ائیر‘ کے پروگرام بھی کیے۔
عامر لیاقت نے رمضان کے پروگراموں کو چینل ائے آر وائی اور ایکسپریس پر بھی منہ مانگے داموں پر بیچا ہے، رمضان میں رمضان کے نام پر اور باقی اوقات میں پروگرام انعام گھر کا آغاز کیا جس سے ٹی وی چینل نے کافی مال بٹورا جس میں سب سے آگے’جیو گروپ‘ رہا۔ ان پروگراموں میں لوگوں میں مفت اشیا بانٹی جاتی ہیں، پروگرام میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہوتے ہیں جن سے عجیب و غریب تماشے کرائے جاتے ہیں اور چند ٹکے کی چیز وں کےلیے یہ لوگ بھکاری نظر آتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے مخلوط پروگرام ہوتے ہیں اس لیے جب کچھ علما نے یہ سوال اٹھایا کہ رمضان کے مخلوط پروگرام کیوں ہورہے ان کو بند کیا جائے تو عامر لیاقت کا جواب تھا کہ حج میں کیوں مخلوط اجتماع ہوتا پہلے اس کو ختم کرو تو میں اپنے مخلوط پروگرام بند کرونگا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ مذہب کا چورن بیچنے والا عامر لیاقت اپنے پروگرام کا مقابلہ حج سے کررہا ہے (استغفر الله واتوب إليه)۔ چینلز کے سیٹھوں اور عامر لیاقت جیسے مذہب فروشوں کا اگر بس چلے تو یہ مذہب کے نام پر سال کے بارہ ماہ یہ پروگرام جاری رکھیں۔
Aamir Liaquat Hussain
رمضان نشریات کی اہم بات یہ بھی ہے کہ اینکر کے کپڑوں سے لے کر مولوی صاحب کی جانب سے کی جانے والی دعایں تک سب سپانسرڈ ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ جو سحر اور افطار کی دعا ہوتی ہے وہ بھی سپانسرڈ ہوتی ہے۔سب سے بڑھ کر پروگرام کے دوران دکھائے جانے والے اشتہارات جو اصل کمائی کا زریعہ ہیں ان میں بعض اوقات نہ مقدس ماہ کا خیال ہوتا ہےاورنہ ہی یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اشتہارات گھروں میں دیکھے جارہے ہوتے ہیں، اکثرنہایت بیہودہ اشتہارات بھی ان میں شامل ہوتے ہیں۔ اور پھر ایک دن رمضان میں ہی عامر لیاقت کی ایک آف لائن کلپس ماکیٹ میں آگیں جن میں وہ بہودہ زبان استمال کرتا پایا گیا۔
عامر لیاقت آجکل بول ٹی وی چینل پر ایک پروگرام ’’ایسے نہیں چلے گا‘‘ چلا رہے ہیں ، یہ بول چینل وہی ہے جسکا سربراہ شعیب احمد شیخ جو جعلی ڈگری بیچنے والی ایگزیکٹ کمپنی کا بھی مالک ہے اور یہ کمپنی عالمی سطح پر بڑے تعلیمی فراڈ میں ملوث ہے ۔ بول چینل ابھی عارضی طور پر چلایا جارہا ہے جو مارچ میں شاید مستقل طور پر چلنا شروع ہوجائے۔ اپنے پروگرام ’’ایسے نہیں چلے گا‘‘ کو گلا پھاڑ کرچلا رہا ہے، پتہ نہیں کیوں انسانوں کی طرح بات نہیں کرتا ہے، 19 جنوری کی رات کو عامر لیاقت نے اپنے پروگرام میں پاک فوج کی گڈبک میں آنے کےلیے ایک ایسے شخص جبران ناصر کا ذکر کیا جو دہشتگردی اور لال مسجد کے دہشتگرد ملا عبدالعزیز کےخلاف لڑرہا ہے۔ عامر لیاقت نے اپنے پروگرام میں نہ صرف یہ الزام لگایا کہ جبران ناصر کا تعلق غائب ہونے والوں بلاگرسلمان حیدر اور وقاص گورایہ سے ہے اور اس کے علاوہ کہا کہ جبران ناصر جیو کے اینٹی پاکستان ایجنڈے پر کام کررہا ہے، جس کے عامر لیاقت خود ملازم تھے۔اس کے علاوہ عامر لیاقت نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ جبران ناصر فیس بک پیج”بھینسا“کا ایڈمن ہے۔ جواب میں جبران ناصر نے پیمرا کے چیئرمین ابصار عالم سے عامر لیاقت اور بول چینل کے خلاف درخواست کی ہے، جواب میں پیمرا کے چیئرمین ابصار عالم نے نجی ٹی وی چینل بول نیوز کے میزبان عامر لیاقت حسین کے خلاف شہری جبران ناصر ایڈووکیٹ کی درخواست پر نوٹس لینے کی یقین دہانی کروا دی ہے۔
عامر لیاقت حسین جو اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگاتے ہیں، اس کے پاس کسی بھی طرح کی ڈگری موجود نہیں ہے، کراچی یونیورسٹی اس کی ڈگریوں کو مسترد کرچکی ہے ، یہ کس شعبے کا ڈاکٹر ہے کسی کو بھی پتہ نہیں۔عامرلیاقت آج کل بول نیوز پر ایگزیکٹو اینکرز کے طور پر ایک پاگل پنے کا کام کررہا ہے، وہ پاکستان کے مختلف میڈیا شخصیات کو انوکھے نام دئے رہا ہے جس کو ہم نک نیم کہتے ہیں۔ عامر لیاقت جیوز نیوز کے اینکر پرسن حامد میر کو “رُل گئے بابا”، نجم سیٹھی کو“چڑیا بابا” شاہزیب خانزادہ کو “گوگل بابا”، ایکسپریس نیوز کے جاوید چودھری کو “چودھری بابا”، دنیا نیوز کے سینئر اینکر پرسن کامران خان کو “خان بابا” کے نام سے بلاتا ہے، اے آر وائی نیوز کے وسیم بادامی اور کاشف عباسی کے بھی نک نیم رکھے ہوئے ہیں۔ کیا ایسے شخص کو آپ ایک نارمل انسان کہہ سکتے ہیں، ایسے میں 100 لفظوں کی کہانی کے موجد مبشر علی زیدی نے ایک کہانی’’ اول فول‘‘لکھی جو روزنامہ جنگ میں 23 جنوری کو شایع ہوئی، یہ کہانی عامر لیاقت پر پوری اترتی ہے، لہذا اپنے پروگرام ’’ایسے نہیں چلے گا‘‘ میں عامر لیاقت اس کہانی کے خلاف بہت بولے اور مبشر علی زیدی کو بتایا کہ گذشتہ رمضان پروگرام میں 65 کروڑ روپے کمائے تھے تو آپکو تنخواہ مل رہی ہے، البتہ یہ نہیں بتایا کہ اسی پروگرام کی وجہ سے مجھے بھی 10 کروڑ سے زیادہ ملے تھے۔ مبشر علی زیدی نے’’اول فول‘‘ کی کہانی کوکچھ یوں لکھا ہے:۔ وہ شہر کا مشہور ڈاکٹر تھا۔ تشخیص غلط کرتا تھا، دوا سے آرام نہیں آتا تھا۔ لیکن چرب زبان تھا، مریضوں کو مطمئن کر دیتا تھا۔ پھر ایک دن میں نے دیکھا،وہ چوراہے پر بیٹھا تھا۔ منہ سے رال ٹپک رہی تھی۔ اول فول بکے جا رہا تھا۔ اپنے کپڑے اتار پھینکے تھے۔ دوسروں کے کپڑے اتارنے کو لپکتا تھا۔ میں نے پوچھا،’’اس کے ساتھ کیا حادثہ ہوا؟‘‘، ایک راہ گیر نے بتایا، ’’یہ بے چارہ آدھا پاگل تھا،اپنا علاج خود کرنے کی کوشش کی، لیکن جعلی ڈاکٹر تھا نا، غلط علاج سے پورا پاگل ہو گیا۔