ایبٹ آباد میں اسامہ کیخلاف امریکی سیلز کے آپریشن کو 3 سال گذر گئے

Osama

Osama

ایبٹ آباد (جیوڈیسک) ایبٹ آباد میں امریکی سیلز کی طرف سے اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کو تین سال گزر گئے، لیکن سرکاری طور پر ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ آج تک جاری نہیں کی گئی۔دومئی 2011 کو امریکی سیلز کی طرف سے ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کے بعد قومی سطح پر دفاعی اداروں کے کردار اور کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ یہ معاملہ منتخب سول حکومت اور فوج کے درمیان تنازع کی صورت بھی بنا۔سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن اس ملک میں چھ سال سے کیسے رہ رہا تھا اس پر میں نے کمیشن بنا دیا۔ اب وہ پوچھ رہے ہیں کہ ویزے کیسے آئے تھے ہم تو پوچھنا چاہتے ہیں وہ کس ویزے پے آیا تھا؟ پیپلزپارٹی کی حکومت نے واقعے کے بعد 9 مئی کو پارلیمینٹ کا ان کیمرہ اجلاس بلایا جس میں اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل احمد شجاع پاشا سمیت دیگر نے ارکان پارلیمینٹ کو بریفنگ بھی دی۔

پارلیمینٹ کے ان کیمرہ اجلاس کی سفارشات کی روشنی میں جون کے مہینے میں اس وقت کے سپریم کورٹ کے جج جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا گیا جس نے دوسو ایک گواہوں اور خفیہ دستاویزات کی روشنی میں ایک تفصیلی رپورٹ تیار کی مگر وہ رپورٹ سرکاری طور پر جاری نہ کی گئی تاہم اس رپورٹ کی ایک کاپی ایک عرب ٹی وی نے جاری کر دی تھی۔ رکن ایبٹ آباد کمیشن اشرف جہانگیر قاضی کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کمیشن کی رپورٹ کے کچھ ایسے پیراگرفز ہوں کچھ ایسے حصے ہوں جو آپ سمجھتے ہوں کہ یہ قومی سلامتی کے حوالے سے اسکو شائع نہیں کرنا چاہیے لیکن تمام رپورٹ کو دبانا یہ قوم کے ساتھ زیادتی ہے۔

ایبٹ آباد کمشن رپورٹ میں انٹیلی جینس اصلاحات، خارجہ پالیسی میں بہتری اور ملک کے اندر پولیس اور دیگر اداروں کی بہتری کی سفارشات کی گئیں۔ ایبٹ آباد کمشن کی منظر عام پر آنے والی رپورٹ میں ملک کے اندر انٹیلی جینس اصلاحات کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے بعد اب مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی نہ صرف یہ رپورٹ جاری نہیں کرسکی بلکہ ملکی دفاع کو موثر بنانے کے لیے انٹیلی جینس اصلاحات کی طرف بھی کوئی خاطر خواہ قدم نہیں اٹھایا گیا۔