تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید سینئر کالم نگار جناب عبدالرﺅف صاحب میرے لئے نہایت محترم ہیں۔ لکھاریوں میں بھی اہم حیثیت کے مالک ہیں۔مگر ان کالم ”کیسا علاج “پرھ کر اُن کی ہومیو پیتھک سے لا علمی اور شائد تعصب محسوس کو کر کے تکلیف ہوئی ہے۔انہیں شائد جرمنی کی عظیم ہومیو پیتھک کی درس گاہوں کا علم ہی نہیں ہے اور شائد یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ آج ساری دنیا ہومیو پیتھک علاج کی معترف ہے۔سوائے ایلو پیتھک کے چند ناکام متعصب ڈکٹروں کے دنیا کے ہر حصے میں طب کے اس شعبے کو پذیرائی ہے۔انگلینڈ جس کا حولہ ایک معمولی تقریر سے دیا ہے میں بھی اس کو ایسیہی پذیرائی حاصل ہے۔
خادم عرصہ 17،سال 983)تا (1990 کراچی کے گورنمنٹ آف سندھ کے”سندھ میڈیکل کالج“میں استاد کی حیثیت سے رہ چکا ہے۔ہومیو پیتھک اور یلو پیتھک طریقہ علاج پرہم اس کے کالج کے دوست اساتذہ کے مابین اکثر بحث رہا کرتی تھی اس بحث میں ہمارے دوست بائیو کیمسٹر کے ڈاکٹر سلیم ہو میوپیتھک کی مخالفت میں بڑے جذباتی ہوا کرتے۔ مگر ان کی اس پیشے سے مخالفت کی کوئی لوجک سوائے ،مخالفت برئے مخالفت اور ہومیو پیتھک سے تعصب کے کچھ نہیں تھی۔ دلیل میں ان کے پاس صرف ایک جملہ ہوتا تھا کہ یہ کارٹی سون کا استعمال کرتے ہے۔(کارٹی سوں ایلو پیتھک ادویات میں نہایت ہی مضر اثرات رکھنے والی دو اہے۔ جو ایلو پیتھک کے سوئے چند معالجوں کے، پاکستان میں تمام نامور طیب استعمال کرتے )جب ان سے پوچھا جاتا کہ کونسی ہو میو پیتھک دوا میں کارٹی سون ہے تو موصوف لا جوب ہو کربحث ختم کر دیتے تھے۔ یہ اتفاق ہی کہئے کہ ہم نے بھی کراچی کے سینٹرل ہومیو پیتھک میڈیکل کالج و ہاسپیٹل سے ہومیو پیتھک میں بھی کولیفائی کیا ہوا ہے۔(عبدالرﺅف صاحب ایک مرتبہ اس کالج کا visit،کر کے دیکھ لیجئے کہ کس پائے کے اساتذہ ہومیوپیتھک پڑھا رہے ہیںتو آپکو ہومیوپیتھک کی تعلیم کا اندازہ ہو جائے گا۔میں صرف اس ضمن میں ایک مثال پیش کرونگا، جب میں یہان زیر تعلیم تھا تو کراچی کے سول ہاسپیٹل کے سرونگ میڈیکو لیگل آپروفیسر ڈاکٹر ایم ایس اے فاروقی صاحب جو بعد میں میرے ہی ساتھ سندھ میڈیکل کالج کے فرانزک میڈیسن کے ہیڈ بھی رہے ایسے اساتذہ یہاں پر فرانسک میڈیسن پڑھاتے تھے)آپ کا ہومیو پیتھک کے ڈاکٹروں پر اعتراض ہے کہ نا معلوم کس معیارکی درس گاہ سے تعلیم حاصل کرتے ہیں؟ درسگاہ کا معیار ہم نے آپ کو تبا دیا باقی فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے۔
اب آئیے ہومیو پیتھک علاج کی طرف تو میرے بھائی عرض ہے کہ اگر ہمارے ایلو پیتھک پریکٹشنر بھائی آنکھوں سےprofessional prejudice ختم کر کے حقائق پر نظر رکھیں تو ہمیں اپنی خا میاںدوسروں کی آنکھ کے شہتیر زیادہ بہترنظر آئیں گی!!!اب ایک سوال یہ ہے کہ اگر ہو میو پیتھک اتنا ہی خطرناک علاج ہے تو یہ دنیا میں اس قدر تعصبات کے باوجود پنپ کیوںرہا ہے؟ہاں البتہ پسماندہ ملکوں اورمعاشروں میں اس کی پذیرائی لا علمی اور اس کےخلاف پھیلائے گئے تعصب کی وجہ سے بہت زیادہ نہیںہے۔یہاں میں پنے دوست کی خد مت میں عرض کرنا چاہوںگا کہ جس سے شائد انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ کیسا جادو اثر ہومیو پیتھک طریقہ علاج ہے یہ۔سندھ میڈیکل کالج ایک کے میڈیسن کے پروفیسر ڈاکٹر شمیم اعظم جواپنی پریکٹس میں ہومیو پیتھک ادوات کا کثرت سے استعمال کرتے تھے۔جن کی شائد اس حوالے سے پی ایم ڈی سی میں بھی شکایت کی گئی۔انہوں نے ایلوپیتھک پریکٹس کو مکمل ترک کر کے ہومیو پیتھک طریقہ علاج کو اپنا لیا تو ربِ کائنات نے ان کی پریکٹس میںاس قدر وسعت کردی کہ اب انہیں سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ہے ۔ لوگ کئی کئی دن پہلے ان کا اپائنمنٹ لیتے ہیں، اور سندھ میڈیکل کالج کی پروفیرشپ کوبھی انہوں نے ہومیو پیتھک طریقہءعلاج اپنا لینے کے بعد خیر باد کہہ دیا ہے اور آج دور دورسے ہی نہیں بلکہ بیرونی ممالک سے بھی لوگ ان کے پاس علاج کی غرض سے آتے ہیں۔ میں صرف حوالوں سے بات کر رہا ہوںمیں نے سینکڑوں پائلز اور ہیو مورائڈکے کیسز اللہ کے فضل سے شفایاب کئے ہیں اُن کی یہان تفصیل دینا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔
Homoeopathic Medicine
صرف ایک مثال سندھ میڈیکل کالج کے حولے سے ہی دینا چاہوں گاحامد علی قریشی سندھ میڈیکل کالج کے ایڈمنسٹریٹر ہوا کرتے تھے۔وہ ایک دن میرپاس بڑی پریشان کی کیفیت آئے (انہیں یہ معلوم تھا کہ میں بھی ہومیو پیتھک پریکٹس کرتا ہوں) ان کی کسی عرزیزہ کی بائی پاس سرجری ہونی تھی،خونی بواسیر کے عارضے میں بھی مبتلا تھیں ،کہ اچانک ریکٹم سے انہیں بلیڈنگ شروع ہوگئی۔ان کی بلیڈنگ کسی طرح بھی رک نہیں رہی تھی اور ان کے (ان دنوںبائی پاس کی ڈیٹ ملنااکیلے کارڈیو ویسکورلر ڈیزیز میں بہت مشکل ہوا کرتا تھا) بائی پاس کی ڈیٹ بہت ہی قریب تھی مجھ سے قریشی صاحب نے اپنی پریشانی کا اظہار کیا ،میں نے مریضہ سے ایکدو سوال کئے اور اللہ کا نام لے کر ہومیوپیتھک دوا لکھ کر انہیں دیدی اور استعمال کا طریقہ بتا دیا ۔اگلے دن قریشی صاحب کی خوشی دیدنی تھی ۔مجھ سے کہنے لگے ڈاکٹر صاحب کیا جادو کر دیا۔ ان کی بلیڈگ تو ایسے رک گئی ہے جیسے کسی نے جادو کر دیا ہے،آپ مجھے اپنے کلینک کاپتہ دیجئے،میں نے ٹالتے ہوئے عرض کی کہ میں یہاں ہوتا ہوں جب آپ کو میری ضرورت ہو حاضر ہوں۔
ایک مثال اور پیشِ خدمت ہے ڈاﺅ میڈیکل کالج کے بائیو کیمسٹر ڈپارٹمنٹ کے ڈاکٹر خورشید ایلو پیتھک پریکٹس کے بر عکس ٹوٹل ہو میو پیتھ ادویات سے لوگوں کا علاج کر رہے ہیں ان کے علاوہ جناح ہسپتال میں کالج آف فیزیشن کا ڈپارٹمنٹ بی ایم ایس آئی کے پروفیسر سید محبوب عالم صاحب بھی بڑی کامیابی کے ساتھ ہومیو پیتھک پریکٹس کر رہے ہیں۔آپ سے دست بستہ عرض ہے کہ جس بات کی پوری معلومات نہ ہو اُس کے خلاف قلم اٹھانے سے پہلے سوچ لیا کریں کہ اس کے ساتھ انصاف کر سکتے ہیںیا نہیں!! ہاں اس بات میں بڑا وزن ہے کہ ہر ایرا غیرا ہومیو پیتھک کے نام پر دوکان سجائے بیٹھا ہے اور لوگون کو لوٹ رہا ہے جس کی کوئی پوچھ گچھ نہیں ہے۔
آپ کے اخبار کے اسی صفحے پر جس پر جس پرآپ کا کالم لگا ہے۔میرے بہت ہی محترم جنہیں میں اپنے استاد کا درجہ دیتا ہوں، جناب ڈاکٹرصفدر محمود ،جن کے پاکستان کی تاریخ کے حقائق پڑھ کر میں اپنا سر فخر سے بلند کر لیتا ہوں کہ کوئی تو میرے قائد کی سچائیوں کا آشنا اس بھٹکے ہوئے معاشرے میں موجو ہے۔ انہوں بھی ایک ایسے کامیاب ہومیو پیتھ کا ذکرکیا ہے۔جوکے ولدکینسر کے عارضے کا جرمنی سے کامیاب ہومیو پیتھک علاج کر وا کر لوٹنے کے بعد لو گوں کا مفت بمعہ ادیات ہومیو پیتھک علاج شروع کیا تو کئی بد معاشوںنے محترم استاد، ڈاکٹر صاحب کے حولے کو فوٹو کر اکے اپنی دوکان پر سجا کرلوگوںکی لوٹ مار شروع کی ہوئی ہے اور جب انہیں اس بات کا علم ہوا تواس سچے ہو میو پیتھ نے اپنی پریکٹس ان بد معاشوں کی وجہ سے بند کر دیان لٹیروں نے ایک سچے ملت کے خادم کو خدمت کرنے سے روک دیا ہے۔تو جناب ہو میو پیتھ کوئی معمولی شعبہ نہیں ہے ۔اس میں کامیابی صرف اس وقت ملتی ہے جب ڈاکٹر میں ہومیو پیتھک سے مکمل آگاہی ہو۔ورنہ ہوا میں تیر چلا کرہر کوئی ہومیو پیتھ نہیں بن سکتا ہے۔
Shabbir Khurshid
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید shabbir4khurshid@gmail.com