تحریر : محمد ریاض عبدالستار ایدھی صاحب کا خلا ہم کبھی بھی پورا نہیں کر سکتے ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے ۔ ماں کے انتقال کے بعد دنیا وی کاموں سے دور ہو گئے اور انسانوں کی خدمت کا جذبہ لے کر اکیلے ہی نکل پڑے ۔گھر سے جو خرچہ ملتا آدھے پیسے ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتے۔ انسانوں کی خدمت کے خود چندہ مانگتے ،دھاگہ بازاروں اور سڑکوں پر فروخت کرتے اور یتیم بچوں کو کھانا کھلاتے۔یتیم بچوں سے وہ اس قدر پیار اور محبت کرتے تھے جس طرح وہ اپنے بچوں کو پیارکرتے تھے ۔ وہ یتیموں کو اپنی اولاد سمجھتے تھے انہوںنے کبھی بھی اپنے بچوں کے بغیر کھانا نہیں کھایا تھا۔ ہر وقت ان سے شفقت اور ان کا پیٹ پالنے کے لئے سڑکوں پر نکل کر چندا اکھٹا کیا کرتے تھے۔
آج دنیا ایک ایسے عظیم انسان سے محروم ہو چکی ہے جس کا کوئی ثانی نہیں ۔ خدمت خلق کے لئے انہوں نے اپنا سب کچھ لگا دیا انہوں نے کبھی بھی کسی کی مدد کے لئے انکار نہیں کیا۔بلکہ دن رات ایک کر دیا ۔یتیموں کے لئے یتیم خانے بنوائے ،بیوئوں کے لئے ہوسٹل کا انتظام کروایا،بے سہارا لوگوں کے لئے ادارے بنوائے ۔روڈایکسیڈنٹ میں مریضوں کے لئے ایمبولینس سنٹر قائم کیے۔ 1951ء میں اپنی جمع پونچی سے ایک چھوٹی سی ڈسپنسری بنائی ۔سار ا دن اس پر کام کرتے اور رات کو اس کے سامنے ہی سوجاتے ۔تاکہ رات کے وقت کوئی مریض یا ضرورت مند خالی نہ چلا جائے۔
جب یہ خبرمیںنے سنی تھی کہ عبدالستار ایدھی صاحب دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں تو سکتہ ساطاری ہو گیاتھا۔ اور آنکھوں سے بے شمار آنسو بہنے لگے تھے۔ اور ہاتھ اٹھا کر اس عظیم ہستی کو خراج تحسین پیش کیا اور اللہ کے حضور ان کے بلند درجات کے لئے دعا کی ۔ان کی کمی کو ہمیشہ محسوس کیا جائے گا ۔ کیونکہ وہ ایک سچے اور مخلص انسان تھے عبدالستار ایدھی ایک ایسا نام ہے جس کو دنیا تا قیامت یاد رکھے گی ۔آج پوری دنیا میں ایدھی صاحب کو انسانیت کی خدمت کرنے پر خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔ ان کی انسانیت کے ساتھ محبت اورخاص کر پاکستان کے ہر یتیم بچے کے لئے وہ شفقت کا ہاتھ تھے ۔ انہوں نے دنیا کے ہر کونے میں یتیم ،بے سہارا،بیوہ اور مسکینوں کے لئے کام کیے ۔ اور بہت سے بچوں کو گود بھی لیا۔ ان کی پرورش کیلئے خود اپنی خدمات پیش کیں ۔تاکہ ان کو اپنے والدین کی کمی محسوس نہ سکے۔
بھارت کے شہر گجرات کے ایک گائوں بانٹوا میں 1928ء کو پیدا ہونے والا انسان کوئی عام آدمی نہ تھا ۔بلکہ جس ماں نے اس کو جنم دیا تھا آج وہ بھی جنت میں بیٹھ کر اپنے بیٹے کے ساتھ ان کی خدمات کو سلام پیش کرتی ہوگی ۔خدمت انسانیت کا جذبہ ان کو اس قدر تھا کہ وہ ہر وقت انسانوں کی مدد کرنے میں مصروف رہتے تھے۔ اسی جذبہ کے ساتھ انہوں نے ایدھی فائونڈیشن کا قیام عمل میں لایا۔او رساری دنیا میں کہیں بھی بے یارومدد گار انسانوں کی مددکے لئے پہنچے ۔اور ان کو اکیلا نہیں چھوڑا۔جس قدر ہو سکا ان کی مدد کی ۔آج ان کے لگائے گئے پودے ساری دنیا میں پھل دے رہے ہیں ۔ ایدھی فائوندیشن کی شاخیں ساری دنیا میں انسانیت کی مدد کے لئے کام کررہی ہیں ۔کہیں بھی انسانوں پر کوئی آفت آجائے یا کہیں بھی کوئی ایکسیڈنٹ ہو جائے ،ایدھی فائونڈیشن کی خدمات پیش پیش ہو تی ہیں۔
ایدھی صاحب ایک عظیم انسان تھے انہوں اپنی ساری زندگی فلاح انسانیت کیلئے وقف کر رکھی تھی ۔اور جاتے جارے اپنی آنکھیں بھی عطیہ کے طور پر پیش کر گئے وہ اپنے کام میں اتنے مصروف رہتے کہاانہوں نے کبھی چھٹی ہی نہیں کی تھی ۔ ان کے اندر انسانیت کی خدمت کا جذبہ اس قدر تھا کہ وہ کبھی اکیلا کھانا نہیں کھاتے تھے ۔ جب بھی کھانا کھاتے یتیم بچوں کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھاتے تھے ۔ ایدھی صاحب سادہ لوح فرشتہ انسان تھے ۔ انہوں نے اپنے آپ کو کبھی بھی بڑا انسان نہیں سمجھا تھا ۔ بس یہی سمجھتے تھے کہ انسانوں کے کام آنا ہی سب سے بڑا کام ہے۔
ایدھی صاحب نے فلاح انسانیت کے عمل کو جاری رکھا او ر ساری دنیا میں اس کام کو کرنے کے لیے شاخیں بنانتے رہے ۔آج ایدھی فائوندیشن کی شاخیں ساری دنیا میں قائم ہو چکی ہیں ۔ہمارے ملک کے علاوہ ایدھی صاحب نے افغانستان،عراق،بوسنیا،چیچنیا،سوڈان،امریکہ میں بھی ایدھی مراکز قائم کیے۔
ایدھی فائوندیشن کے زیر استعمال تقریباً 12کے قریب ایمبولینس گاڑیاں کام کر رہی ہیں جو پاکستان کے اندر مختلف مراکز پر موجود ہیں ۔دو طیارے ،ایک ہیلی کاپٹر ز ،اسپیڈ بوٹس ،بہت سے کلینک ،زچگی سنٹرز ،بہت سے پاگل خانے،یتیم خانے ،لاوارث بچوں کے لئے مراکز ،پناہ گاہیں،اسکول،بیوہ خواتین کے لئے ووکیشنل سنٹرز،سلائی کڑائی مراکز کام کر رہے ہیں ۔ اتنا سب کچھ ہونے کے بائوجود ایدھی صاحب نے اپنے آپ کو ایک عام آدمی کی طرح رکھا۔ آج ایدھی صاحب ہم میں موجود تو نہیں مگر ان کے کام کو دیکھا جائے تو وہ کبھی مر ہی نہیں سکتے۔ کیونکہ ہم تاقیامت ان جیسا کام اور انسانیت کی خدمت نہیں کر سکے۔مگر ایک کام ضرور کر سکے ہیں۔جس کو کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
آج ایدھی کے اس مشن کو آگے بڑھانے کے لئے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ایدھی صاحب نے جو یتیموں کے لئے کیا اب ان کے سر پر ہاتھ رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔آج ایدھی صاحب کے مشن کو ان کے بیٹے فیصل ایدھی لے کر چل رہے ہیں ان پر بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے باپ کے مشن کوکامیاب کرنے کے لئے ہر لمحہ سرگرم رہیں اس کے علاوہ ان کو اس مشن میں کامیاب ہونے کے لئے ہم سب کی ضرورت ہے اگر ہم اس مشن کی کامیابی کے لئے ان کی مدد کرتے ہیں تو ایدھی صاحب کا مشن کامیاب ہو گا اور بے سہارا،یتیم،بیووں ،لاوارث بچے بھوکے نہیں رہیں گے آج یہ بچے ہماری مدد کر ترس رہے ہیں ۔ایدھی فائونڈیشن کو اپنی خیرات زکواة اور عطیات دیں تاکہ یہ ادارہ قائم رہ سکے اس لئے ہم سب پاکستانیوں کو اس کار خیر میں حصہ ڈالنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ یہ مشن رک نہ سکے بلکہ کامیاب ہوسکے ۔ ایدھی فائونڈیشن کے تمام ادارے ہماری مدد کے منتظر ہیں ہمیں اس مشن کی کامیابی کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔تاکہ یہ ادارہ تاقیامت قائم ودائم رہے۔