تحریر : محمد مظہر رشید چوہدری عبدالستار ایدھی 1 جنوری 1928 کو بھارتی شہر بانٹوا میں سیاسی کارکن اور تاجر کے گھر پیدا ہوئے والد شروع سے ہی اپنے دوستوں کا خیال رکھتے تھے اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے والے انسان تھے عبدالستار ایدھی بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے لگے ان کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ ان کی ماں انہیں 2 پیسے دیتی ایک اپنے خرچ کے لیے جبکہ دوسرا پیسہ کسی ضرورت مند کے لیے چھوٹی عمر میں ہی ضرورت مندوں کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا ہوا 11 سال کی عمر میں اپنی ماں کی دیکھ بھال شروع کی جو کہ ذیابیطس کی مریضہ تھیں۔تقسیم ہند کے بعد1947میں بانٹوا سے ہجرت کر کے پاکستان کراچی میں آکر آباد ہوئے 1951میں اپنی جمع پونجی سے دکان خریدی جس میں ایک ڈاکٹر کی مدد سے ڈسپنسری کھولی اور ڈاکٹر سے ابتدائی امداد کا علم حاصل کیا آپ اپنے دوستوں کو مدد کرنے کا درس دیتے عبدالستار ایدھی ڈسپنسری کے میز پر ہی سو جاتے تا کہ بوقت ضرورت کسی مریض کو میسر ہوں 1957 میں کراچی میں فلو کی وباء پھوٹ پڑی ایدھی نے فوری عمل کا مظاہرہ کیا اور ملحقہ علاقوں میں خیمے لگوا کر مدافعتی ادویات کی مفت فراہمی شروع کی اور عوام سے چندے کی اپیل کی شروع میں کراچی اور بعد میں پورے پاکستان سے چندہ ملنا شروع ہوا مخیر حضرات نے ان کی دل کھول کر امداد کی امداد کی رقم سے انہوں نے عمارت خریدی اور وہاں نرسوں کی ٹریننگ کا آغاز کیا بس یہی ایدھی فائونڈیشن کا آغاز تھا۔
عبدالستار ایدھی خود کہتے ہیں کہ میں کبھی پڑھا تو نہیں لیکن مارکس اور لینن کی کتابیں پڑھی ہیں ،کربلا والوں کی زندگی پڑھی ہے،میں تمہیں بتاتا ہوں اصل جنگ کس کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟اصل جنگ امیر اور غریب کی ہے ظالم اور مظلوم کی ہےعبدالستار ایدھی نے اپنی پوری زندگی صرف انسانیت کا درس دیا ان کا خیال تھا کہ انسان اللہ کی مخلوق ہے مذہب جو بھی ہو ہمیں مریض ، ضرورت مند کی مدد کرنی چاہیے انہوں نے اپنی سادگی کی بنا پر نا صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں شہرت پائی اور شہرت اور مقبولیت کے باوجود بھی انہوں نے اپنی زندگی کو کسی دوسری تہذیب یا رنگ میں نہیں ڈھالاہمیشہ روائتی پاکستانی لباس جو کہ ان کی اپنی ملکیت میں صرف دو ہی تھے وہی پہنتے اس کے علاوہ کھلے پائوں والی چپل جو کہ وہ پچھلے بیس سال سے استعمال کر رہے تھے یہ ایک حقیقت ہے کہ ایدھی فائونڈیشن کا بجٹ تقریباً ایک کروڑ ہے لیکن انہوں نے ایک پیسہ بھی اپنی ذات پر خرچ نہیں کیا۔
ان کے بیٹے فیصل ایدھی کا ایک بیان ہے کہ افغانستان میں جب ایدھی فائونڈیشن کا افتتاح ہوا تو مہمانوں،صحافیوں اور عملہ کے لیے کرسیاں خریدی گئیں تو ایدھی صاحب یہ دیکھ کر بہت غصہ ہوئے اور کہا کہ یہ پیسے محتاج اور غریبوں کے ہیں ہمیں اس پر کوئی حق نہیں اس سے بڑھ کر سادگی یہ کہ اس رات آپ ڈرائیور کے ساتھ کلینک کے فرش پر ہی سوئے ایدھی فائونڈیشن کے پاس 600ایمبولینس ہیں گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے 1997کے عداد و شمار کے مطابق ایدھی فائونڈیشن کی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولینس سروس اور عبدالستار ایدھی بغیر کوئی چھٹی کیے اپنا کام سر انجام دینے والے واحد شخص ہیں اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ریکارڈ بننے کے باوجود بھی کوئی چھٹی نہیں کی ہسپتال اور ایمبولینس کے علاوہ ایدھی فائونڈیشن نے بچوں کے لیے سکول،لاوارث سینٹر،یتیم خانے،بلڈ بنک اور معذوروں کے لیے گھر اور بے پناہ مقامات پر پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں عبدالستار ایدھی کا ایک خواب تھا کہ وہ ہر 500کلومیٹر کے بعد ایک ہسپتال تعمیر کروائیں امید کی جا سکتی ہے۔
اب ان کے صاحبزادے فیصل ایدھی اس مشن کو پایہ تکیمل تک پہنچائیں گے اگرچہ ان کو خدمات کے عوض مولانا کا لقب دیا گیا لیکن انہوں نے اس لقب سے انکار کر دیا کیونکہ وہ کہتے کہ انہوںنے کسی دینی سکول یا ادارے میں تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن وہ اپنے آپ کو ڈاکٹر کہلوانا پسند کرتے تھے کیونکہ انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن نے انہیں ڈاکٹری کی اعزازی ڈگری دی تھی جب کوئی شخص ان کے کام کی تعریف کرتا تو وہ نا خوش ہوتے عبدالستار ایدھی کسی بھی دینی یا حکومتی امداد کو قبول نہ کرتے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ امداد مشروط ہو تی ہے ضیاء الحق اور اطالوی حکومت کی جانب سے ملنے والی امداد بھی اسی نظریہ سے واپس کر دی تھی۔
1996میں عبدالستار ایدھی کی خود نوشت سوانح حیات شائع ہوئی عبدالستار ایدھی کسی قسم کی لالچ اور حوس کے بغیر پوری زندگی مخلوق خدا کی مدد میں مصروف رہے ایدھی کو ان کے بہترین کام کے صلہ میں بہت سے حکومتی ،مذہبی،نجی اور غیر ملکی اعزازات سے نوازا گیا جن میں چند یہ ہیں1988میں لینن امن ایوارڈ،دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ 2000،ہمدان ایوارڈ برائے عمومی طبی ایوارڈ 2000متحدہ عرب امارات،نسٹیٹویٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کی جانب سے 2006میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری،یونسیکو مدنجیت سنگھ اعزاز2009کالج آف فزیشن اینڈ سرجنز پاکستان کی جانب سے سلور جوبلی شیلڈ،1989میں سندھ حکومت کی جانب سے سماجی خدمت گار برائے برصغیر کا اعزاز، 1989میں حکومت پاکستان کی جانب سے اعلیٰ ترین اعزاز نشان امتیاز،پاکستان آرمی کی جانب سے اعزازی شیلڈ جیسے بے شمار ایوارڈ عبدالستار ایدھی کو دیے گئے عبدالستار ایدھی صرف ایک انسان کا نام ہی نہیں بلکہ ایک عہد اور ولولے کا نام ہے ایدھی نے اپنی پوری زندگی لوگوں کی مدد کرنے میں گزاری 98سال کی عمر میں پہنچ کر بھی ان کا دل جوان اور محنت اور مدد کرنے کا جنون ویسا ہی تھا جو جوانی میں تھا۔
عبدالستار ایدھی گردوں کے عارضے میں مبتلا ہو گئے قوم نے ان کی صحت یابی کے لیے بہت دعائیں کیں لیکن ہر انسان کو ایک نا ایک دن ضرور جانا ہے 8جولائی2016 کی درمیانی شب ان کی طبیعت مزید خراب ہو گئی میری نظر ابھی ٹیلی ویثرن کی جانب ہی تھی کہ ایک افسوس ناک بریکنگ نیوز دیکھنے کو ملی کہ ان کے صاحبزادے فیصل ایدھی یہ اعلان کر رہے ہیں”ایدھی صاحب ہم میں نہیں رہے”یہ وہ لمحہ تھا کہ نا صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک افسوس کا سماء تھا کچھ کا خیال تھا کہ خبر جھوٹی ہے اور کچھ تو اسے ایک ماننے سے ہی انکاری تھے ایدھی صاحب کی آخری وصیت کے مطابق ان کی آنکھیں عطیہ کر دی گئیں ان کا نماز جنازہ کراچی میں پڑھایا گیا جس میں وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ، چیف آف آرمی اسٹاف سمیت ملک کی تمام سرکاری و غیر سرکاری اداروں نے شرکت کی عبدالستار ایدھی کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا 31مارچ 2017کو ایدھی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے 50روپے کا سکہ جاری کیا حکومت پاکستان کی جانب سے زبر دست خراج عقیدت پیش کیا گیا اور گوگل نے بھی ایدھی کو خراج عقیدت پیش کیا عبدالستار ایدھی کی جگہ کوئی اور تو نہیں لے سکتا لیکن امید کی جا سکتی ہے کہ ایدھی فائونڈیشن کو ان کی اہلیہ بلقیس ایدھی اور بیٹے فیصل ایدھی ہمیشہ ان کے مشن کو جاری رکھیں گے آخر میں ایدھی صاحب کے لیے ایک شعر ہی کہوں گا کہداور حشر تجھے میری قسم ۔۔۔تو میرا نامہ اعمال تو دیکھ تمام عمر میں نے عبادت کی ہے ۔۔۔۔۔میں نے انسانوں سے محبت کی ہے۔